سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2017-01-10

کائدے آزم یا مسجد؟

میں نے کہا سفاری پارک
 اس نے کہا نئی کلفٹن
میں نے جیب سے سکہ نکالا، چلو ٹاس کرتے ہیں
 کائدے آزم یا مسجد؟
اس نے کہا مسجد
کائدے آزم آگئے
 اور ہم چنگچی میں بیٹھ گئے

فیر میں نے کہا آلو کی چف
 اس نے کہا نئی انڈے ولا برگر
میں نے جیب سے سکہ نکالا
 کائدے آزم یا مسجد؟
اس نے کہا کائدے آزم
اس بار مسجد آگئی
 اور ہم نے آلو کی چف لے لی

فیر میں نے کہا ٹیسٹی گولڈ
 اس نے کہا نئی سونی گولڈ
میں نے جیب سے سکہ نکالا
 کائدے آزم یا مسجد؟
اس نے کہا مسجد
کائدے آزم آگئے
 اور ہم نے ٹیسٹی گولڈ کھالی

فیر میں نے کہا مجھ سے شادی کرلو
 اس نے کہا نہی، کزن سے کروں گی
میں نے جیب سے سکہ نکالا
 کائدے آزم یا مسجد؟
اس نے کہا کائدے آزم
کمبخت اس بار کائدے آزم ای آگئے
 اور وہ کزن کے ساتھ چلی گئی
تو کل فیر مدتوں باد اس سے ملاقات ہوئی
 میں نے پوچھا خوش تو ہو ناں کزن کے ساتھ؟
بولی ہاں، وہ اپنے فیصلے خود کرتا اے
 سکے سے نئی کراتا
میں نے کہا یانی تم سے مشورہ نئی کرتا؟



فیر جیب سے اسے 2 مختلف سکے نکال کے پکڑائے
 کہ میں وی اپنے فیصلے خود ای کرتا ہوں
  کسم سے! ہچکی آگئی

2017-01-04

مولبی نامہ

مدرسہ پڑھا رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی

بچے ورغلا رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی

 

میوزک پ جھوم جھوم کے سڑکوں پ بار بار

دھندا چلا رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی

 

حلوے جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی
"روزی" کما رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی
حلال و حرام کی "یہودی مشین" پر
فتوے لگا رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی


مسجد بھی مولبی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہی مولبی فیر جمع کیا چنداں
پھر کیسی کیسی ہاتھ کی دکھائیں صفائیاں
اور الزام لگا رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی


فیس بک پر مولبی ہے تو ٹوئٹر پر مولبی
ہر فیک آئی ڈی کے پیچھے ہے مولبی
"ڈولی" جو کراتی ہے کلرفل چنریوں کے درشن 

"پگڑیوں" کی جمع کر رکھی ہے میچنگ کی کلیکشن
سبز بھی ہے وائٹ بھی، پیلا اور بلیک بھی

"ست رنگی" رومال بھی ہے اوے لیبل ایز فیشن

"اینجلینا" کی ڈی پیوں کے پیچھے بھی مولبی
گندی گندی ویڈیوں کے نیچے بھی مولبی


"منکر" بھی مولبی ہوئے، کفر کے بھرے ہوئے
کیا کیا کرشمے کشف و کرامات کے کئے
حتیٰ کہ اپنے جوش خطابت کے زور پ 

 "مقدس" جا بنا ہے سو ہے وہ بھی مولبی
دوسروں کی "خارش" پ کرکے استغفر اللہ
چھپ چھپ کے کجھا رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی
 

شاعرہ بھی مولبی ہے تو مائرہ بھی مولبی

خارج از الدائرہ ہیں سب دائرہ میں مولبی
آئی ایس آئی کے مولبی، کچھ را کے مولبی
ہے زندگی عذاب ہائی ہائی را مولبی
 

ہے بات سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا
یاں تک جو ہوچکا ہے سو ہے وہ بھی مولبی
 

الغرض یہ کہ کچھ ہیں اچھے بھی مولبی
بلکہ یوں کہیں کہ بہت اچھے ہیں مولبی
ایمان ہے عزیز گر تو یوں کہو رازی 

 سارے ہی اچھے، بڑے اچھے ہیں مولبی
کہ نظم جو سنا رہاے، وہ خود بھی تو ہے مولبی
سن کر مزے اڑا رہا ہے، سو ہے وہ بھی مولبی
غصے میں آرہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی
گالیاں سنا رہا ہے سو ہے وہ بھی مولبی


بغدادی نژاد رازی کی کتاب "مسلکی مجبوریاں" سے اکتباس شدہ "مولبی ناماں"

2016-09-09

سیاسی پیار


مجھے معلوم ہے
یہ تمہاری امی کا ہی دبائو ہے
رینجرز کی تراں

یہ جو تم نے میسج بھیجا ہے ناں
فاروق ستار کی تراں
کہ یہ جو لاتعلقی کی ہے
الطاف حسین کی تراں
میں سب سمجھتا ہوں
یہ دبائو ہی ہے
رینجرز کی تراں

کہ اب میں کچھ ناں کہوں گا
کوئی بات، کوئی کال، نہ کروں گا
الطاف کی تراں
کہ میں انتظار کروں گا
حالات کے سدھرنے کا
متحدہ کی تراں

کہ میں جانتا ہوں
یہ تمہاری امی کا ہی دبائو ہے
رینجرز کی تراں

مشور و ماروف شائے و تجزیہ بھگار رازی کی کتاب "سیاسی پیار" سے اقتباس شدہ آزاد نظم


2016-07-20

آپریشن تیسیکرلر

15 جولائی دوپہر 2 بج کر 26 منٹ، جنرل اونورلو کے وٹ سیپ پ ایک میسج موصول ہوتا ہے، جنرل کی پیشانی پر بل؟ اپنے 22 سالہ کیرئیر میں کبھی کسی نے جنرل کو پریشان ہوتے نہی دیکھا، بڑے ہی دشوار گزار مرحلے آئے، بڑے ہی کٹھن سفر طے کئے گئے مگر جنرل کے ماتھے پر کبھی شکن نہی آئی تو آج ایسا کیا ہوا، کولیگز ابھی اسی سوچ و بچار میں تھے کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے فوری رائونڈ ٹیبل کانفرس طلب کرلی، شام 4 بجے اجلاس شروع ہوا جو انتہائی خفیہ رکھا گیا، میڈیا کو کان و کان خبر ناں ہونے دی، ڈیڑھ گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں اہم ترین فیصلے کئے گئے۔ فوجی ہیڈ کوارٹر میں مانیٹرنگ سیل قائم کردیا گیا، محض ایک گھنٹے کے شارٹ نوٹس پر 300 ایس ایس جیز کمانڈوز تیار تھے، جنرل اورنورلو نے کمانڈوز کو آشیر باد دیا اور الواداع کہا جس کے بعد طیاروں نے پرواز بھرنا شروع کردی، یوں آغاز ہوا بظاہر ناممکن نظر آنے والے اس "آپریشن تیسیکرلر" کا۔

رات 8 بج کر 39 منٹ، باغیوں نے سرکاری ٹی وی سے اعلان کردیا کہ ملک کو اس وقت ایک عبوری کونسل چلارہی ہے، وزیر اعظم کو معزول کردیا گیا جبکہ صدر اور آرمی چیف کو یرغمال بنالیا گیا ہے، پورے ملک میں انٹرنیٹ اور نجی ٹی وی چینلز کی نشریات بھی بند کردی گئیں، لوگوں میں خوف کا عالم تھا، عوام اپنے مستقبل کے حوالہ سے پریشان تھی، اے ٹی ایم کی لائن میں لگے یوگوشا نے پکوچو سے پوچھا کیا ہمیں بچانے کوئی مسیحا نہیں آئے گا؟ اس سے پہلے کہ پکوچو یوگوشا کو جواب دیتا لوگوں نے آسمان کی طرف اشارے کرتے ہوئے شور مچانا شروع کردیا، دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی، ایس ایس جیز کمانڈوز نے اپنا کام شروع کردیا تھا، لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایس ایس جیز کمانڈوز ٹنگڑی مار کر ٹینکوں کو گراتے اور اس میں سے فوجی نکال کر گرفتار کرلیتے، پتھروں کا لنگر بناکر ایسی قوت سے پھینکتے کہ ہیلی کاپٹر زمین پر آگرتا، تھری جی ایسی مہارت سے چلاتے کہ ایک ایک گولی ریورس سوئنگ ہوکر تین تین باغی قتل کرتی، محض 4 گھنٹوں میں ملک سے باغیوں کا صفایا کرکے استنبول کی پہاڑیوں پر سبز پرچم لہرا کر اسٹیٹ کی رٹ بحال کردی گئی، شہر کے مشہور تقسیم اسکوائر پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی اور"تیسیکرلر" تیسیکرلر" کے نعرے لگنا شروع ہوگئے، صدر صاحب بھی قوم سے خطاب کرنے تقسیم اسکوائر پہنچ گئے۔

تو جب صدر ساب نے خطاب شروع کرنا چاہا تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ اردگان ساب کیا کہنا چاہیں گے آپ جنرل اورنورلو فوج کے ایس ایس جیز کمانڈوز کے بارے میں جن کی بر وقت امداد کے سبب آپ بغاوت کو کچلنے میں کامیاب ہوئے؟

صدر ساب نے انتہائی ناگواری سے صحافی کی جانب دیکھا اور نہایت تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ایس ایس جیز کمانڈوز؟ اور پائن کتھے او؟ وہ تو ہماری عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر بچائی ہے جمہوریت

صحافی بولا، لیکن سر اردگان وہ پاکستانی فیس بکی پیجز ۔ ۔ ۔

صدر اردگان کو شدید غصہ آیا اور انہوں نے اپنے مترجم کو 4 گندی گندی گالیوں کا اردو ترجمہ کرنے کو کہا، اتنے میں ساتھ کھڑے پاکستانی سفیر معاملہ بھانپ گئے اور صدر سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے، اردگان پائن تہاڈے طیارے وی تو کشمیر آندے جاندے ریندے آں، ہم کبھی شکایت کئے؟ یہ فیس بکی دھندے ہیں، بہت سوں کی روزی روٹی لگی ہوتی ہے اس سے، پلیز جانے دیں۔ اسکے بعد سفیر ساب نے اپنی فیس بک لاگن کرکے اردگان ساب کو کچھ مزید "مزے مزے کی" پوسٹیں، مشبرے اور "ریسیپیز" پڑھائیں جن سے ترک صدر کا غصہ جاتا رہا اور محفل زعفرانی ہوگئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔






جس کے بعد ترک صدر نے "تیسیکرلر جنرل اورنولو" کا نعرہ لگایا اور اپنے خطاب میں پاکستانی فیس بکی پیجز کے ایڈمنان اور دانشوروں کا شکریہ ادا کیا، ایک موقع پر جب انہوں نے پوسٹ دیکھی جس پر لکھا تھا "کوئی کافر ہی ہوگا جو شیئر نہی کرے گا" تو انکی آنکھیں بھر آئیں۔ ترک صدر نے اپنے خطاب میں قیامت تک آنے والے آمروں کو ایک مشورہ بھی دیا کہ آئندہ جب بھی مارشل لا لگائیں تو انٹرنیٹ پر پابندی کبھی نہ لگائین ورنہ فیس بک سے بچھڑے دانشور ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر خود کشی کرنے آجاتے ہیں، اپنے خطاب میں ترک صدر نے نواز شریف کی نیک خواہشات پر انکا شکریہ ادا کیا اور کہا "جاگتے رہنا ساڈے تے ناں رہنا"

ختم شد


2015-08-31

چوتھی بار کا ذکر

چوتھی بار کا ذکر ہے کہ رات کا ٹائم بج رہا تھا۔۔ آسمان پر کتے چمکرے تھے۔۔ گلی میں تارے بھونک رے تھے۔۔۔ اور ایک کھٹارا سا ''وڑائچ طیارہ'' نیشنل ہائی وے پر کتے کی طریوں دوڑ رہا تھا
چھوکا چھک چھوکا چھوک چھوکا چھک پوووونپ چھوکا چھک چھوکا چھک۔۔۔ کہ اچانک۔۔۔ بوڑی مائی جو مالٹے کھاری تھی اس کے ہاتھ سے مالٹے گر پڑے، دھوتی پینے چچا جوگنڈیریاں چوپ رہے تھے انہوں نے گنڈیریاں بس سے باہر کلٹی کردیں، فوزی جو سفر کاٹنے کیلئے ''شعاع'' پڑھ رہی تھی اسنے رسالہ باہر پھینک کر آئندہ نہ پڑھنے کی قسم کھالی۔۔۔ جو سورا تھا وہ جاگ گیا اور جو جاگ را تھا وہ بیہوش ہوگیا۔۔۔ جس کو کلمہ آتا تھا وہ کلمہ پڑھنے لگا جس کو نہی آتا تھا وہ ''جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو'' پڑھنے لگا۔۔۔غرض پوری بس میں افرا تفری، دھما چوکڑی مچ گئی۔۔۔پوری بس میں خوف کے بادل چھائے وے تھے۔۔۔ اور کہیں کہیں جزوی طور پر برس کر بس اور کپڑے ناپاک بھی کرچکے تھے۔۔۔
ایسے میں بس ایک خوب صورت، غبرو، نورانی چہرے والا نوجوان تھا جو دونیا و مافیا سے بے نیاز چہرے پر تبسم سجائے انتہائی مطمئین بیٹھا تھا۔۔۔ جسے دیکھ کر بس واسی بہت حیران کن پریشان تھے۔۔۔خیر! معززین بس نے نوجوان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ ایک بزرگ چچا جو غالبن انور مقصود اور قاضی واجد کے مشترکہ کزن تھے گویا ہوئے۔۔۔ تو کون ہے اے درویش صفت انسان۔۔۔ کیا تو دیکھتا نہیں، بس میں کس قدر دھما چوکڑی مچی ہوی ہے۔۔۔ ہر پاسے نفسا نفسی کا عالم ہے۔۔ بھائی بھائی کو نہیں پہچانرا۔۔ دوست دوست کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں۔۔۔ جی ایف/بی ایف ہر رشتہ بیگانہ ہوچکا۔۔۔۔ سب کو فکر ہے تو بس اپنی جان کی۔۔ ہر طرف خوف کے ڈیرے ہیں۔۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا اگلے لمحے کیا ہونا والا ہے۔۔۔ نہ جانے ہم میں سے کون بچے۔۔۔ اور کون لقمہ اجل بن جائے۔۔۔۔ جان تو سب کو پیاری کو ہوتی ہے ناں۔۔۔ تو آخر وہ کیا چیز ہے جس نے تجھے موت سے بیگانہ کررکھا ہے۔۔۔ آخر ترے پاس ایسا کونسا حکیم لقمان کا نسخہ ہے۔۔۔۔ جو تجھے موت کے ڈر سے آزاد کئے ہوئے ہے۔۔۔ یا تو نے ایسی کونسی ریاضتیں کر رکھی ہیں۔۔ کہ تجھے یقین کامل ہے۔۔ توبچ جائے گا۔۔ یا سیدھا جنت میں جائے گا؟۔۔ کیا تو خلق خدا کو دیکھتا نہی؟۔۔۔ کیا تجھے خبر نہیں عنقریب ہم سب موت کی وادی میں دھکیل دئے جائیں گے؟۔۔۔۔کیا تو جانتا نہی بس کے بریک فیل ہوچکے ہیں؟۔۔۔ آخر وہ راز ہم پر بھی تو عیاں ہو جسکے سسبب تومطمئن بیٹھا ہے۔۔۔ وہ بھید ہم بھی تو جانیں جسکے باعث تو دنیا و مافیا سے بے نیاز پڑا ہے۔۔۔آخر کب تک یہ مہر خموشی لونڈے آخر کب تک؟۔۔۔۔ کچھ بولتا کیوں نہیں تو اے مرد درویش؟۔۔۔ آخر کب تک یوں زندہ لاش بنا بیٹھا رہے گا؟۔۔۔۔ ابے تجھ سے بول رہے ہیں اوئے بووول ناں!
بس اگلے ہی لمحے اس درویش صفت نوجوان نے نگاہ اٹھا کے اپنے گرد جھمگھٹا لگائے معززین کے وفد کو دیکھا۔۔۔ کھڑکی کا شیشہ کھول کے مین پوری کا شوربہ تھوکا۔۔۔۔ اور کانوں سے ٹونٹیاں نکال کے بولا۔۔۔ کیا ہے بے، یہ تم سب گدھ بن کے میرے آجو باجو کیوں کھڑے ہو ہاں؟ یاں میت ہونے والی میری؟ حالت نزع میں دکھرا میں تمہیں؟ چلو جاﺅ شاباش کام کرو اپنا اپنا۔۔۔۔
لیکن بیٹا وہ بس کے بریک فیل۔۔۔
کیا؟ بس کے بریک فیل؟ بچاﺅ بچاﺅ بچاﺅ۔۔۔۔۔ کوئی روکو پلیز۔۔۔۔ ہیلپ ہیلپ۔۔۔ یا اللہ پلیز 
 

2015-05-23

یہ ہی بچہ

بلاشبہ بچے کائنات کی حسین ترین مخلوق میں سے ہیں۔ رب تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہماری دھرتی کو بچوں جیسی انمول نعمت، رحمت اور برکت سے نوازا ہے۔ یقین جانیئے کہ اگر اس دہشت زدہ ماحول میں ہمیں بچوں کی مسکراہٹیں  دیکھنا نصیب نہ ہوں تو آدھی دنیا نفسیاتی امراض میں مبتلاء ہوجائے۔ اگر اس گھٹن زدہ زیست میں چند لمحے بچوں کی قلقاریاں سننے کو نہ ملیں تو زمانہ صمن بکمن ہوجائے۔ اگر بچوں کے معصومانہ سوالات ہمارے لیے مسرتوں کا سامان نہ کریں تو ہماری حس مزاح تو ''پنجابی اسٹیج ڈرامے'' دیکھ دیکھ کر ہی مرجائے۔

لہذاٰ ہمیں بچوں کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ان کے چہروں کی شادابی دیکھر کر ہمیں روز جینے کی نئی امنگ اور نئی ترنگ نصیب ہوتی ہے۔ معصومانہ سوالات، میٹھی میٹھی باتیں، پیاری پیاری شرارتیں، پھول جیسی مسکراہٹیں، فرشتوں جیسی آہٹیں، یہ دلنشیں سا جذبہ جو محب کو ہمیشہ مسرور رکھتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ 

بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ جس گھر میں بچے نہ ہوں وہ گھر نہی مکان لگتا ہے،
اور جس آنگن میں بچے نہ کھیلیں وہ جنگل بیابان لگتا ہے،
جس پیڑ کے نیچے بچے جھولا نہ جھولیں، وہ پیڑ سوکھ جاتا ہے،
بچہ جس کھلونے سے کھیلنا چھوڑ دے، وہ کھلونا ٹوٹ جاتا ہے،
اور جس انسان سے بچہ روٹھ جائے، اس سے سارا جہان روٹھ جاتا ہے۔
ہندو دھرم میں تو بچوں کو ''بھگوان کا روپ'' مانا جاتا ہے، اور بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں، پھر کیا مذہب، کیا علاقہ، کیا قومیت اور کیا نسل۔ ایک چور ڈکیت اور چوڑے چمار کا بچہ بھی اس کے لیے اتنا ہی خوبصورت اور معصوم ہوتا ہے جتنا کہ آپ کا اور ہمارا۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ اپنے دشمن کے بچے سے نفرت کرنا بھی اتنا آسان نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ مگر۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر آخر اس بچے میں ایسا کیا تھا جو ہمارا دل اس کے کان کے نیچے دھرنے کو کر رہا ہے۔ ۔ ۔جی ہاں یہ ہی بچہ۔ ۔ ۔   



شعوری طور پر لاشعور میں کئی بے ربط خیالات گردش کر رہے تھے اور ادھر یہ چوڑے ہونٹ، چپٹے ماتھے اور نیم بنجر سر والے شخص کی کراہت آمیز آواز ہمارے کان کے پردوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ہم شادی کی تقریب میں بیٹھے پھول جیسے بچوں کو سوچ رہے تھے، گلاب جیسے چہروں کو تاڑ رہے تھے، خچر جیسی آواز سن رہے تھے اور ہر 15 سیکنڈ کے وقفے سے ایک روائیتی سی ہنکاری(ہونہہ) مار رہے تھے۔ مگر ''نور بھائی'' ہماری بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دبئی اور سنگاپور کے سچے جھوٹے قصے سنائے جارہے تھے۔ بل آخر ہمت کی، نشست سے اٹھے، بائیں ہاتھ کی چنگلی آسمان کی جانب بلند کی اور ''آتا ہوں ابھی'' کی ''ڈگری'' کرا کے کٹنا چاہا۔ اگلے ہی لمحے نور بھائی کی گود میں بیٹھے ''ڈیڑھ سالہ شخص'' جوکہ نور بھائی کی ہی ''مائکرو کاپی'' تھا نے ہم پر فدائی حملہ کردیا اور فضاء ''آؤں غاؤں شاؤں'' کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ جیسے تیسے ''میٹرکس'' کی طرح ''ریورس سوئپ'' ایکشن میں خود کو بچایا اور ''ابے چل! بھوتنی کے'' کہہ کر کٹ لیے۔

یہ ہی وہ بچہ تھا جو ہمیں دنیا کا سب سے بڑا ''سامراج'' نظر آرہا تھا، یہ ہی بچہ ہمیں ''استعماری قوتوں'' کا ''ایجنٹ'' دکھائی دے رہا تھا، ہمارے لیے جنگ عظیم اول و دوئم کی ساری تباہ کاریوں کا ذمہ دار بھی یہ ہی بچہ تھا، شائد میخائل نے کلاشنکوف، افریڈ نوبل نے ڈائنامائٹ اورآئن اسٹائن نے ایٹم بم اسی بچے کے واسطے ایجاد کیے تھے۔ یہ ہی بچہ ہمارے ''اڈیالہ جیل'' میں قید دل کا ''پرویز مشرف'' تھا، یہ ہی بچہ ہماری ''جمہوری حکومت'' پر ''شب خون'' ثابت ہوا تھا، ہماری ''منتخب حکومت'' کی بساط لپیٹنے والا شخص اسی بچے کا باپ تھا، ہمیں ''اصلی ڈگری کیس'' میں ''ڈی گریڈ'' کرکے ''نا اہلی'' کا فیصلہ سنانے والا ''چیف جسٹس'' اسی بچے کا نانا تھا، اسی بچے کی خالہ ہمارے ہنستے بستے ''رنگین'' کراچی جیسے دل کے لیے ''ایم کیو ایم'' ثابت ہوئی تھی۔ وہ ''مینڈیٹ'' جو کبھی ہمارا ہوا کرتا تھا، آج غیر کے پاس تھا، تو آخر کیوں نہ جلتے ہم انتقام کی آگ میں۔ ۔ ۔ کیوں نہ برا لگتا ہمیں یہ بے ضرر سا ''ڈیڑھ سالہ شخص''۔ ۔ ۔ ۔جی ہاں یہ ہی بچہ۔ ۔ ۔ ۔ 

اس دن ہم پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ آپ چاہے بچوں سے محبت کے کتنے بڑے ہی دعویٰ دار ہوں، چنے منوں کے کتنے ہی دلدادہ ہوں، مگر آپ کی ''پہلی محبت'' کا بچہ آپ کو ایک ''زہر قاتل'' اور ''ڈراؤنا خواب'' ہی نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ آپ کے سارے ''مدر ٹریسائی جذبات'' لمحوں میں خاک ہوجاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ کیوںکہ آپ کی ''پہلی محبت'' کا بچہ آپ سے کسی ''مامتا'' یا ''باپتا'' کا نہیں بلکہ ''ماموں تا'' کا متقاضی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 


2015-03-29

اجے دیوگندیت


اجے دیو گندیت کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ تاریخ کے جھرونکوں میں جھانکا جائے تو زمانہ ماقبل ظہور کائی ملی شا میں دریائے گنگا اور جمنا کے کنارے موریا اور گپتا جیسی سلطنتوں کا ذکر ملتا ہے، ایران عراق، چین اور روم کی بڑی بڑی شہنشاہیتوں کا ذکر ملتا ہے، یونان کی شہری ریاستوں کا ذکر ملتا ہے۔ مگر نہیں ملتا تو اجے دیوگندی ریاستوں کا ذکر نہیں ملتا۔ بلاشبہ مورخین کی اکثریت اس معاملے میں علمی و تاریخی بد دیانتی کی مرتکب ہوئی ہے۔ اجے دیوگندیت جو نام ہے ایک تہذیب کا، جو نام ہے ایک لائیف شٹائیل کا، جو نام ہے پیار محبت اور جدائی کا، جو نام ہے دھوکے اور بے وفائی کا۔ اجے دیوگندیت! آہ کیا حسین امتزاج ہے لچر پن اور میلے پن کا۔


اجے دیوگندی لوگ بنیادی طور پر بالی وڈی النسل لوگ تھے۔ جو ابتدائی طور پر دریائے لیاری کے قرب میں واقع وادی کھارادر، چاکیواڑہ اور نیٹی جیٹی کے اطراف میں بستے تھے۔ تاہم بعد میں دنیا کے دوسرے حصوں سے لوگ نقل مکانی کرکے یہاں آتے گئے۔ ان نو آبادیوں سے جہاں بالی وڈی النسل افراد نے رانگڑ پن اور لچر پن کے اثرات قبول کیئے وہیں دیگر اقوام کے افراد نے بھی میلا پن سیکھا اور خوب سیکھا۔ یوں بالی وڈی النسل افراد اور مختلف اقوام کے باہم ملاپ سے ایک نئی تہذیب نے جنم لیا جسے ''اجے دیوگندیت'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ماضی میں نئی کراں چی، لالوکھیت، ملیر، لانڈھی، کورنگی، بلدیہ اور اورنگی میں اجے دیوگندی ریاستیں قائم رہی ہیں۔ بنیادی طور پر اجے دیوگندی علاقوں میں بادشاہی نظام تھا۔ ان کا حاکم اعلیٰ مطلق العنان بادشاہ ہوتا تھا جسے پیار سے ''یونوٹ انچارج'' کہا جاتا تھا۔ اجے دیوگندیوں کا معاشرتی نظام بہت مظبوط خطوط پر استوار تھا، ان کی ریاستوں میں عوام کو مفت اور فوری انصاف مہیا تھا۔ ''لڑکی چھیڑنے'' کا کیس ہو یا ''بی سی''(کمیٹی) میں گھپلا، کرائے داروں سے پھڈا ہو یا ہمسایوں سے رنجش یونوٹ آفس میں صرف ایک درخواست لگانا تمام مسائل کا حل سمجھا جاتا تھا۔


لیاقت آباد کے آثار قدیمہ ثابت کرتے ہیں کہ اجے دیوگندیوں کا دفاعی نظام بھی بہت موثر تھا۔ شہر کی فصیلیں تو زیادہ اونچی نہ تھیں لیکن گلی کے نکڑوں پر بیرئیرز کا اہتمام ہوتا تھا، فی سبیل اللہ خدمات انجام دینی والی ''میلا فورس'' دن رات پہرے دیا کرتی تھی، جبکہ کسی بھی بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لیئے لائیسنس یافتہ نیٹو کا اسلحہ بھی رکھا جاتا تھا۔

اجے دیوگندی لوگ موسیقی کے دلدادہ تھے جس کی جھلک ان کے نیشنل اینتھم ''ٹو ڑو ڑو ڑوں'' میں بھی نظر آتی ہے۔ خوشی و غمی کے مواقعوں مثلا شادی بیاہ، بے وفائی جدائی پر با آواز بلند موسیقی چلائی جاتی تھی۔ موسیقی کے انتخاب کے معاملے میں بھی اجے دیوگندیوں کا ذوق دوسری اقوام سے بہت بلند تھا، شادی و بیاہ کے مواقع پر اکثر ''انار کلی ڈسکو چلی''، ''منی بدنام ہوئی'' اور ''شیلا کی جوانی'' جیسے لیجنڈری گیت گائے جاتے جبکہ جدائی اور بے وفائی جیسی آئے دن کی ٹریجڈیوں پہ ''دل میرا توڑ دیا اس نے'' ''دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے'' ٹائیپ گانے گائے جاتے۔ اس مقصد کے لیئے اجے دیوگندیوں کے ہاں بڑے بڑے بفرز، ایمپلی فائیر اور چائینہ کے موبائل ہوا کرتے تھے۔ دوران سفر بھی کانوں میں ٹونٹیاں پھنسا کر موسیقی سننے کو باعث شو سمجھا جاتا تھا۔

اجے دیوگندی مذہب سے بھی خصوصی شغف رکھتے تھے۔ مذہبی تہوار مثلا محرم، ربیع الاول اور چاند راتیں پوری عقیدت و احترام سے منایا کرتے تھے، محرم اور ربیع الاول میں مذہبی جذبے کے تحت چندہ کیا جاتا جبکہ چھوٹی چاند رات شاپنگ مالوں میں اور بڑی چاند رات منڈیوں میں سیلیبریٹ کی جاتی تھیں۔ صبح صادق(12 بجے) کے وقت رشکہ، ٹیکسی، ویگنوں، چنگچیوں اور دکانوں میں اگر بتیاں جلائی جاتیں اور امجد صابری کا کلام بجایا جاتا تھا۔

اجے دیوگندی خوش خوراک واقع ہوئے تھے، ان کے مشہور پکوانوں میں ایک کی دو چائے، سرغٹیں، ٹوکن، ماوے، کالی نسوار اور انواع و اقسام کے خشک و تر گٹکے شامل تھے۔ 

اجے دیوگندیوں کھیلوں کے بھی رسیا تھے، ان کے پسندیدہ کھیلوں میں پٹی، ڈبو، اسنوکر  سنو براؤس، کنگ آف فائٹرز اور نائنٹی سیون ہوا کرتے تھے۔ چونکہ ممی ڈیڈی پنا اور برگر پنا اجے دیوگندیوں میں معیوب سمجھا جاتا تھا اس لیئے فٹبال، کاؤنٹر سٹرائیک اور نیڈ فار سپیڈ جیسے کھیلوں سے اجتناب کیا جاتا تھا

اجے دیگندی قوم  زبان کی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھی۔ ماہر لسانیات کا اجماع ہے کہ اجے دیوگندی لوگوں کی زبان ''اوردو'' تھی جوکہ سرسید والی اردو سے مشابہت رکھتی تھی، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ''اوردو'' دراصل ''اردو'' کا ہی بلاتکاری ورژن تھی۔ اجے دیوگندی قصہ گویائی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ شام اور رات میں لائٹ جانے پہ گلی کے نکڑوں، چوباروں اور نالے کی دیواروں پر محفلیں جما کرتی تھیں جہاں بڑے بڑے قصہ گو جنہیں اجے دیوگندی لوگ چھوڑو کہا کرتے تھے، اپنے اپنے قصے سنایا کرتے تھے۔  

اجے دیوگندیوں کا قومی تہوار ہڑتال ہوتی تھی، جسے پورے جوش و خروش سے منایا جاتا۔ ہڑتال والے دن قوم کے اوباش سپوت سڑکوں پر ٹائر جلاتے کبھی کبھی ٹرک مرک بھی جلادیتے، سکول کی چھٹیاں کرادی جاتیں، دکانیں بند کراتی جاتیں، بچے سڑکوں پر اینٹوں کی یا بوتلوں کے کریٹ کی وکٹ بناکہ کرکٹ کھیلتے اور بوڑھے نکڑ پر بیٹھ کر پتے کھیلتے یا سیاست پر منہ کی فائرنگ کرتے۔ 

المختصر یہ کہ اجے دیوگندی ایک قوم تھی، بہت ہی پیار محبت کرنے والی، جانو شونا والی قوم۔ ہمیں اپنی قوم اور اپنی تہذیب اجے دیوگندیت پر فخر ہونا چیئے کہ اس نے ارد گرد کی تمام تہذیبوں پر اپنے اثرات چھوڑے۔

2014-11-28

فارغان شوشل میڈیا کے نام بند خط

امام البغاوتین جناب عزت ماب رازی اللہ رازی کا

 فارغان شوشل میڈیا کے نام بند خط۔



میرے نہایت ہی عزیز دوستو! خوبصورت سہیلیوں! سڑیل ویلے بزرگوں! اور نہایت نا قابل احترام شوشل میڈیائی دانشوڑان، بلاگڑان، اسکالرز علماء و مشائیخ ٹائیپ تمام توپ چیزوں!


 اسلام و علیکم۔


امید ہے بے ایمانی و بد اخلاقی کی ''پیک'' پر ہوںگے اور ہر دم ملک و ملت کی بدنامی کے لیئے دل و جان سے کوشاں ہونگے۔ 


عزیزان نا محترم! بعد از سلام و بے عزتی (جو آپ نے محسوس نہیں کی) عرض ہے! جیسا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ ناکام عاشقوں کے دلوں کی دھڑکن، کبڑے مجنوؤں کے دل کا چین، بے روزگار پاپیوں کی ادھوری محبت، یعنی ''ماہ دسمبر'' اپنی تمام تر نحوستوں اور رولوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے کو ہے۔ ''ماہ دسمبر'' کا زکر چھڑے تو اس ''دسمبری شاعری'' کے پیچھے اپنی جوانیاں برباد کرنے والے نوجوانوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی. وہ نوجوان جنہوں نے اپنی کمائی سے ایزی لوڈ کروا کروا کر اس ''دسمبری شاعری'' کی آبیاری کی. وہ نوجوان جنہوں نے چار چار بھایوں سے ماریں کھائیں مگر اپنے نظریہ ''دسمبری شاعری'' کا سودا نہیں کیا. اس دسمبر سے ہم فارغان کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں کہ ہم میں سے بہت سوں کو کئی کئی پہلی محبتیں اسی ''ماہ دسمبر'' میں ہوئی ہیں۔ شائید آپ میں سے بہت سے لوگ اس ''ماہ دسمبر'' اور ''دسمبری شاعری'' کے رولے کو مجھ سے بہتر جانتے ہوں۔ اور یہ بھی جانتے ہوں کہ شوشل میڈیائی فارغان و عاشقان کی زندگی میں اس ''ماہ دسمبر'' اور دسمبری شاعری'' کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ خصوصا عاشقان فیس بکیان ''دسمبری رولے'' کے لیئے خاص اہتمام کیا کرتے ہیں اور ''دسمبری شاعری'' پوسٹ پوسٹ کہ پوری فیس بک گیلی کردیا کرتے ہیں۔ لہذا بحیثیت ایک فارغ فیس بکی میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ کی توجہ ''ماہ دسمبر'' اور اس کی نحوستوں کی جانب مبذول کراؤں۔ اور آپ کو بھی زیادہ سے زیادہ ''دسمبری رولا'' پانے پر اکسا سکوں۔


فارغان محترم! کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ہم کس طرح روز مرہ کے جھمیلوں میں اپنا شوشل میڈیائی وقت صرف کر رہے ہوتے ہیں؟ شام سے صبح ہوتی ہے، صبح سے شام ہوتی ہے۔ زندگی یوں ہی اپنی، تمام ہوتی ہے۔ ٹکے ٹکے کے فلسفے جھاڑنا، اپنی اپنی ''چولیوں'' کو مولانا رومی، علامہ اقبال، ارسطو، ہٹلر اور نیلسن منڈیلا کے نیم برہنا جامے پہنانا، جمعہ مبارک اور عید مبارک سے لے کر ویلن ٹائین ڈے، کرسمس اور دیوالی تک کی مبارکیں ٹیگ کرنا، سیاسی بتوں کے لیئے زندہ باد و مردہ باد کرنا، گالم گلوچ حتیٰ کہ فیمبلی ممبران تک کو بلاک کردینا، کیا ہم یہی سب کرنے آئے ہیں شوشل میڈیا پہ؟


مجھے جان کر بڑی کمینی سی خوشی ہوئی کہ آپ سب کا جواب اثبات میں ہے۔ کیونکہ شوشل میڈیا وجود ہی اس مقصد کے لیئے آیا ہے۔ تو میرے نہایت ہی نا قابل احترام فارغان شوشل میڈیائی فسادیوں! آپ کے نام میرے اس بند خط کا مقصد بھی آپ سب کو یہ باور کرانا ہے کہ کہیں ہم اپنے مقصد سے ہٹ تو نہیں رہے؟ کہیں ہم اپنا قیمتی وقت شوشل میڈیا پر رولا پانے کے بجائے اپنی پڑھائی، اپنی نوکری یا اپنے کاروبار کو تو نہیں دے رہے؟ کہیں ہم شوشل میڈیائی صفحے مغلظات سے بھرنے کے بجائے اپنی صلاحتیں کسی اصلاحی مقصد کے لیئے تو استعمال نہیں کر رہے؟ کہیں ہم لائیک اور کمنٹس کے پیچھے خچل ہونے اور ایک دوسرے سے بغض رکھنے کے بجائے ان شوشل میڈیائی رابطوں کو کسی فلاحی مقصد کے لیئے استعمال تو نہیں کر رہے؟


اگر آپ واقعی ایسا نہیں کر رہے تو آفرین ہے آپ پہ کہ آپ نے میرا سر فخر سے بلند اور چھاتی تکبر سے چوڑی کردی۔ خوشخبری ہے آپ سب کے لیئے کہ بہت جلد آپ بھی میرے پیچھے اس خوش نما گڑھے میں گرنے والے ہیں جو ہم سب مل بانٹ کر ایک طویل عرصے سے کھودتے آرہے ہیں۔ فارغان کرام! زیادہ سریئس ہونے کی ضرورت نہیں اور اگر خدانخواستہ آپ کے ضمیر کا کوئی اسپئیر پارٹ جاگ گیا ہو تو اسے تھپکی دے کر واپسی سلا دیجیئے، اور میرے ساتھ ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیجیئے کہ اس دسمبر اور اگلا پورا سال بھی ایک نئے جذبے اور جنون کے ساتھ ''کام شام کوئی نہیں، رولا شولا پائے جاو'' کے اصول پر پوری طرح کاربند رہیں گے۔ پوری دیانت کے ساتھ اپنی اور دوسروں کی نیندیں حرام کریں گے۔ اور ملک و ملت کے لیئے ایک بد نما داغ ثابت ہوں گے۔