سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2014-08-26

ایک اور ڈراپ سین

آج دو ماہ بعد کچھ لکھنے کے لیئے قلم اٹھایا تو قلم نے بھی پوچھ ڈالا آر یو سیریئس؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا مگر قلم پھر بھی اٹھنے سے انکاری رہا۔ ماحول کا اثر تو سب پہ پڑتا ہے نہ بئی۔ میں بولا اٹھ جا بھیا تو کیوں دھرنا دیئے بیٹھا؟ قارئین کرام اس قلم کے جواب نے مجھے وہ سمجھادیا جو بڑے بڑے دانشور اور فلسفی نہ سمجھا سکے قلم بولا ایویں!

اصل میں پچھلے دو ہفتوں سے دھرنوں نے ساری قوم کو جس طرح سے دھرا ہوا ہے اس کا الٹیمیٹلی رزلٹ یہی نکلنا تھا۔ میں خود گزشتہ پندرہ دن سے شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں۔ صبح دیر سے اٹھتا ہوں تو امی اسے قانون کے منافی قرار دیتی ہیں۔ نہانے میں دس منٹ زیادہ لگادوں تو باہر سے الٹی میٹم آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ کلاس میں دس منٹ لیٹ پونہچوں تو کنٹینر رکھ کہ راستہ بند کردیا جاتا ہے۔ گھر واپس چلا جاؤں تو یوٹرن کے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ اور اگر کسی طور مذاکرات کرکہ کلاس میں بیٹھ بھی جاؤں تو ٹیسٹ آگھیرتا ہے۔ اب پہلے تو ٹیسٹ میں دھاندلی کرنا ہی مشکل ہوتا ہے اور اگر دھاندلی کرکہ سات آٹھ نمبر مل جائیں تو کوئی نہ کوئی جیلس اسٹوڈنٹ افضل خان کا کردار نبھانے سامنے آجاتا ہے۔ الغرض یہ کہ زندگی سے مک مکا کرکہ چلنا بھی دشوار کردیا ہے۔

اب اس فتنے کے دور میں بندا فیس بکی کے علاوہ کرے بھی تو کیا کرے۔ دو اسٹیٹس پٹیائی کے خلاف کیا ڈال دیئے پندرہ دن میں چار بریک اپ ہوگئے۔ ٹی وی بھی دیکھیں تو کیا دیکھیں نیوز سن سن کہ کان پک گئے اور دھرنا دیکھ دیکھ کہ آنکھیں اتنی سینچی نہیں جتنی سوجھ گئیں۔ تو آج شام میں نے نیوز کا بائیکاٹ کرکہ ''کچھ اور'' دیکھنے کا سوچا۔ لوگوں سے اکثر سنتا آیا ہوں پوگو دیکھو پوگو! تو سوچا کیوں نہ آج پوگو دیکھ ہی لیا جائے۔ پوگو لگایا تو کیا دیکھتا ہوں ایک چھابڑی نما دکان ہے جس میں لڈو سے بھری برنیاں رکھی ہیں کچھ ہی فاصلے پر بھیم جگو چھٹکی اور ڈھولو اور بھولو کھڑے للچائی ہوئی نظروں سے لڈو تاڑ رہے ہیں۔ ہولے ہولے سب لڈو کی دکان کی طرف بڑھتے ہیں اور جس کے ہاتھ جتنے لڈو لگتے ہیں اینٹھ لیتے ہیں۔ چوری کے بعد ڈھولو اور بھولو کو احساس ہوتا ہے کہ وہ تو بھیم اور اس کے ساتھیوں کے مقابلے میں بہت کم لڈو چرا پائے اس لیئے وہ فورن اپنے لڈو وہیں پھینک کر شور مچا مچا کر سارے گاؤں کو جمع کرلیتے ہیں اور بھیم اور اس کے ساتھیوں پر چور لٹیرے ڈکیت اور کرپٹ ہونے کے الزامات لگانا شروع کردیتے ہیں۔ اتنا بڑا مجمع دیکھ کر بھیم کی ٹنڈ پر پسینہ آنا فطری تھا بھیم اپنی ٹنڈ سے پسینہ صاف کرتے ہوئے جگو اور چھٹکی سے کہتا ہے ابے لے آپن تو گڑ گئے۔
کیا بھیم اور اس کے ساتھی اس بحران سے نکل پائیں گے؟

کیا ڈھولو اور بھولو کے پیچھے کالیا کا ہاتھ ہے؟

سٹے ٹیونڈ پوگو!

وقفہ ہوتے ہی میں چینل چینج کرتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں ایک سجی سنواری بیگم شیشے کے سامنے کھڑی اپنی زلفیں سنوار رہی ہے۔ اتنے میں ڈور بیل بجتی ہے اور شوہر گھر میں داخل ہوتا ہے۔ دونو ایک صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر شوہر بیوی سے بچوں کے متعلق پوچھتا ہے تو بیوی جواب دیتی ہے کہ خالہ کے گھر گئے ہوئے ہیں۔ شوہر اپنی ٹائی کھولتے ہوئے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ بولتا ہے تو پھر شروع کریں؟ اور جوابا بیوی بھی مسکرادیتی ہے۔۔

تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ
نہیں رہنے دیں بس سمجھیں کچھ نہیں دیکھتا۔ چینل تبدیل کرکہ پوگو لگاتا ہوں تو سارا منظر ہی بدلا ہوا ہوتا ہے۔ بھیم اور ڈھولو بھولو آپس میں گلے مل رہے ہیں۔ مجمعے میں موجود ہر شخص کے چہرے پر خوشی عیاں ہے۔  بھیم زندہ باد اور ڈھولو بھولو زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ دونوں پر پھول کی پتیاں نچھاور کی جارہی ہیں۔ اور ہولے ہولے مجمع اپنے اپنے گھروں کو واپس جارہا ہے۔ اس قدر ہیپی اینڈنگ دیکھ کر میں حیران و پریشان رہ گیا۔ وقفے سے پہلے تک جو ایک دوسرے کو چور لٹیرا اور کرپٹ کہہ رہے تھے اب باہم شیر و شکر نظر آرہے ہیں۔ آخر دوران وقفہ ایسا کیا سین ہوا جو میں مس کرگیا۔ بی ہائینڈ دا سین ہونے والے اس سین کو شائید میں اور باقی تماشہ دیکھنے والے کبھی نہ دیکھ پائیں۔ اس تماشے کے اسکرپٹ رائیٹر کو شائید ہم کبھی نہ جان پائیں۔ لیکن ایک بات تو حقیقت ہے کہ دوبارہ جب بھی اس قسم کا تماشہ لگایا جائے گا تو ڈھولک پور کی معصوم عوام میں مجمع لگاکر دھرنا دینے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔


3 تبصرے:

افتخار راجہ کہا...

یہ سب ٹوپی ڈرامہ چل رہا، اس ڈرامے میں ٹوپی عوام کو پہنائی جارہی ہے، خبر کچھ یوں ہے کہ پہلے والے حکمرانوں کی شکل کو پسند نہ کرنے والے نئے حکمران انکی جگہ لیتا چاہ رہے، مگر حکمران تو حکمران ہی ہوتا ہے بادشاہو، عوام کو اس سے کیا فرق پڑنا، مگر اس ٹوپی ڈرامے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ پوگوکے چکر میں عوام دو ہفتے سے کھجل ہورہی، اور ملک کی پہلے ہی ہچکیاں لیتی ہوئی اکانومی تشنج کا شکار ہوگئی،

Unknown کہا...

جی درست فرمایا راجے ساب!

Unknown کہا...

بہترین تجزیہ، زبردست،