سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2015-03-29

اجے دیوگندیت


اجے دیو گندیت کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ تاریخ کے جھرونکوں میں جھانکا جائے تو زمانہ ماقبل ظہور کائی ملی شا میں دریائے گنگا اور جمنا کے کنارے موریا اور گپتا جیسی سلطنتوں کا ذکر ملتا ہے، ایران عراق، چین اور روم کی بڑی بڑی شہنشاہیتوں کا ذکر ملتا ہے، یونان کی شہری ریاستوں کا ذکر ملتا ہے۔ مگر نہیں ملتا تو اجے دیوگندی ریاستوں کا ذکر نہیں ملتا۔ بلاشبہ مورخین کی اکثریت اس معاملے میں علمی و تاریخی بد دیانتی کی مرتکب ہوئی ہے۔ اجے دیوگندیت جو نام ہے ایک تہذیب کا، جو نام ہے ایک لائیف شٹائیل کا، جو نام ہے پیار محبت اور جدائی کا، جو نام ہے دھوکے اور بے وفائی کا۔ اجے دیوگندیت! آہ کیا حسین امتزاج ہے لچر پن اور میلے پن کا۔


اجے دیوگندی لوگ بنیادی طور پر بالی وڈی النسل لوگ تھے۔ جو ابتدائی طور پر دریائے لیاری کے قرب میں واقع وادی کھارادر، چاکیواڑہ اور نیٹی جیٹی کے اطراف میں بستے تھے۔ تاہم بعد میں دنیا کے دوسرے حصوں سے لوگ نقل مکانی کرکے یہاں آتے گئے۔ ان نو آبادیوں سے جہاں بالی وڈی النسل افراد نے رانگڑ پن اور لچر پن کے اثرات قبول کیئے وہیں دیگر اقوام کے افراد نے بھی میلا پن سیکھا اور خوب سیکھا۔ یوں بالی وڈی النسل افراد اور مختلف اقوام کے باہم ملاپ سے ایک نئی تہذیب نے جنم لیا جسے ''اجے دیوگندیت'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ماضی میں نئی کراں چی، لالوکھیت، ملیر، لانڈھی، کورنگی، بلدیہ اور اورنگی میں اجے دیوگندی ریاستیں قائم رہی ہیں۔ بنیادی طور پر اجے دیوگندی علاقوں میں بادشاہی نظام تھا۔ ان کا حاکم اعلیٰ مطلق العنان بادشاہ ہوتا تھا جسے پیار سے ''یونوٹ انچارج'' کہا جاتا تھا۔ اجے دیوگندیوں کا معاشرتی نظام بہت مظبوط خطوط پر استوار تھا، ان کی ریاستوں میں عوام کو مفت اور فوری انصاف مہیا تھا۔ ''لڑکی چھیڑنے'' کا کیس ہو یا ''بی سی''(کمیٹی) میں گھپلا، کرائے داروں سے پھڈا ہو یا ہمسایوں سے رنجش یونوٹ آفس میں صرف ایک درخواست لگانا تمام مسائل کا حل سمجھا جاتا تھا۔


لیاقت آباد کے آثار قدیمہ ثابت کرتے ہیں کہ اجے دیوگندیوں کا دفاعی نظام بھی بہت موثر تھا۔ شہر کی فصیلیں تو زیادہ اونچی نہ تھیں لیکن گلی کے نکڑوں پر بیرئیرز کا اہتمام ہوتا تھا، فی سبیل اللہ خدمات انجام دینی والی ''میلا فورس'' دن رات پہرے دیا کرتی تھی، جبکہ کسی بھی بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لیئے لائیسنس یافتہ نیٹو کا اسلحہ بھی رکھا جاتا تھا۔

اجے دیوگندی لوگ موسیقی کے دلدادہ تھے جس کی جھلک ان کے نیشنل اینتھم ''ٹو ڑو ڑو ڑوں'' میں بھی نظر آتی ہے۔ خوشی و غمی کے مواقعوں مثلا شادی بیاہ، بے وفائی جدائی پر با آواز بلند موسیقی چلائی جاتی تھی۔ موسیقی کے انتخاب کے معاملے میں بھی اجے دیوگندیوں کا ذوق دوسری اقوام سے بہت بلند تھا، شادی و بیاہ کے مواقع پر اکثر ''انار کلی ڈسکو چلی''، ''منی بدنام ہوئی'' اور ''شیلا کی جوانی'' جیسے لیجنڈری گیت گائے جاتے جبکہ جدائی اور بے وفائی جیسی آئے دن کی ٹریجڈیوں پہ ''دل میرا توڑ دیا اس نے'' ''دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے'' ٹائیپ گانے گائے جاتے۔ اس مقصد کے لیئے اجے دیوگندیوں کے ہاں بڑے بڑے بفرز، ایمپلی فائیر اور چائینہ کے موبائل ہوا کرتے تھے۔ دوران سفر بھی کانوں میں ٹونٹیاں پھنسا کر موسیقی سننے کو باعث شو سمجھا جاتا تھا۔

اجے دیوگندی مذہب سے بھی خصوصی شغف رکھتے تھے۔ مذہبی تہوار مثلا محرم، ربیع الاول اور چاند راتیں پوری عقیدت و احترام سے منایا کرتے تھے، محرم اور ربیع الاول میں مذہبی جذبے کے تحت چندہ کیا جاتا جبکہ چھوٹی چاند رات شاپنگ مالوں میں اور بڑی چاند رات منڈیوں میں سیلیبریٹ کی جاتی تھیں۔ صبح صادق(12 بجے) کے وقت رشکہ، ٹیکسی، ویگنوں، چنگچیوں اور دکانوں میں اگر بتیاں جلائی جاتیں اور امجد صابری کا کلام بجایا جاتا تھا۔

اجے دیوگندی خوش خوراک واقع ہوئے تھے، ان کے مشہور پکوانوں میں ایک کی دو چائے، سرغٹیں، ٹوکن، ماوے، کالی نسوار اور انواع و اقسام کے خشک و تر گٹکے شامل تھے۔ 

اجے دیوگندیوں کھیلوں کے بھی رسیا تھے، ان کے پسندیدہ کھیلوں میں پٹی، ڈبو، اسنوکر  سنو براؤس، کنگ آف فائٹرز اور نائنٹی سیون ہوا کرتے تھے۔ چونکہ ممی ڈیڈی پنا اور برگر پنا اجے دیوگندیوں میں معیوب سمجھا جاتا تھا اس لیئے فٹبال، کاؤنٹر سٹرائیک اور نیڈ فار سپیڈ جیسے کھیلوں سے اجتناب کیا جاتا تھا

اجے دیگندی قوم  زبان کی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھی۔ ماہر لسانیات کا اجماع ہے کہ اجے دیوگندی لوگوں کی زبان ''اوردو'' تھی جوکہ سرسید والی اردو سے مشابہت رکھتی تھی، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ''اوردو'' دراصل ''اردو'' کا ہی بلاتکاری ورژن تھی۔ اجے دیوگندی قصہ گویائی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ شام اور رات میں لائٹ جانے پہ گلی کے نکڑوں، چوباروں اور نالے کی دیواروں پر محفلیں جما کرتی تھیں جہاں بڑے بڑے قصہ گو جنہیں اجے دیوگندی لوگ چھوڑو کہا کرتے تھے، اپنے اپنے قصے سنایا کرتے تھے۔  

اجے دیوگندیوں کا قومی تہوار ہڑتال ہوتی تھی، جسے پورے جوش و خروش سے منایا جاتا۔ ہڑتال والے دن قوم کے اوباش سپوت سڑکوں پر ٹائر جلاتے کبھی کبھی ٹرک مرک بھی جلادیتے، سکول کی چھٹیاں کرادی جاتیں، دکانیں بند کراتی جاتیں، بچے سڑکوں پر اینٹوں کی یا بوتلوں کے کریٹ کی وکٹ بناکہ کرکٹ کھیلتے اور بوڑھے نکڑ پر بیٹھ کر پتے کھیلتے یا سیاست پر منہ کی فائرنگ کرتے۔ 

المختصر یہ کہ اجے دیوگندی ایک قوم تھی، بہت ہی پیار محبت کرنے والی، جانو شونا والی قوم۔ ہمیں اپنی قوم اور اپنی تہذیب اجے دیوگندیت پر فخر ہونا چیئے کہ اس نے ارد گرد کی تمام تہذیبوں پر اپنے اثرات چھوڑے۔

کوئی تبصرے نہیں: