سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2014-01-12

بس کر پگلے رلائے گا کیا؟

آج کا دن ''31 فیبریری'' باقی دنوں سے کچھ مختلف ہی تھا۔ میری دائیں آنکھ پھڑپھڑا رہی تھی بائیں بغل میں کھجلی ہو رہی تھی اور پڑوسیوں کا کتا زور زور سے بھونک رہا تھا (غور کرنے پر معلوم ہوا کہ ٹی وی پہ ٹاک شو چل رہا ہے)۔ آج میں خلاف توقع پانچ منٹ پہلے ہی اٹھ گیا تھا اس لئے گیلے کپڑے سے منہ پونچھنے کا ٹائم بھی مل گیا تھا اور میرا موڈ بھی کافی خوشگوار تھا اتنا خوشگورا جتنا کہ عموما ''14 فیبریری'' کو ہوتا ہے۔

آفس جانے کے لیئے گھر سے نکلا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی ''ٹڑاڑن ٹن ٹڑاڑن ٹن ٹڑاڑن ٹن''۔ یہ میرے ''منحوس الاقسام'' دوست ''نامعلوم'' کی کال تھی۔ گو اس کے منہ سے کبھی کوئی خیر کی بات سنی تو نہ تھی مگر پھر بھی میرے اندر سے آواز آئی کہ اٹھالے۔

نامعلوم نے مجھے بتایا کہ آج ہڑتال ہے یعنی کہ چھٹی، یاہو!!! اب مجھے اپنی بائیں بغل میں کجھلی کا مطلب سمجھ آگیا تھا اور شائد پڑوسیوں کا کتا بھی یہ ہی بھونک رہا تھا۔ مگر میں سنتا کب ہوں ان کتوں کی۔ نامعلوم نے مجھے اپنے گھر انوائٹ کیا تو میں اس کے گھر کی طرف ہو لیا۔

رسمی بات چیت کے بعد ملک کی ''بڑی نازک صورت حال'' پر بھی گفتگو ہوی۔
چائے کے ''چسکے'' لگاتے ہوئے نامعلوم نے کہا بس یار اس قوم کو قدر ہی  
نہیں ہے اپنے محسنوں (مشرف اور اس کے حواریوں) کی۔ اب دیکھو
پرویز مشرف ''صاحب'' کے دور میں ڈالر کی قیمت کیا تھی اور اب کیا ہے،
پیٹرول کی قیمت تب کیا تھی اور اب کیا ہے، معیشت مظبوط تھی ان کے دور میں بیروزگاری نہیں تھی(واضح رہے موصوف
 کی کچھ دن پہلے ہی سات ہزار روپے /مہینہ کی جاب لگی ہے)۔  نامعلوم کے بیروزگاری والے جملہ سے میری آنکھیں کھل گئی تھیں ضمیر جاگ گیا تھا (اور پتہ نہیں کیا کیا)۔  نامعلوم نے کراچی میں چائنہ کٹنگ کو بھی مشرف کے کارناموں میں گنوایا تو زبان کی برجستگی نے کام دکھادیا''اچھا ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا''۔  جس بندے نے گیارہ سال تک ملک کی (بلا وجہ) خدمت کی اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ ملک ہمارے
 آبا ؤ اجداد نے بنایا تھا اور ہم یہ کام دوبارہ بھی کر سکتے ہیں (غالبا پاکستان-2 کی طرف اشارہ تھا)۔  نامعلوم محاجروں کے غم میں گھلا جا رہا تھا اور میں پکا جا رہا تھا۔ میں نے نامعلوم کو اتنا جذباتی آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ نا معلوم کا اصرار تھا کہ ''روٹی شوٹی کھا کر جانا'' مگر میں اتنی جزباتی تقریر کی تاب نہ لا سکا، میری آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے تھے لہذٰا میں وہاں سے یہ تاریخی جملہ ''بس کر پگلے رلائے گا کیا؟'' کہہ کر کٹ لیا۔

 گھر پھنچ کر میں نے نوافل ادا کئیے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ میرا صرف ڈیڑھ گھنٹا ویسٹ ہوا ہے، ورنہ لوگوں نے تو اس راہ میں سات سات گھنٹے کی پریس کانفرںسیں بغیر ''پوا'' چڑھائے کیں، بغیر ہنسے سنیں، اور بغیر ڈینٹونک کا اشتہار چلائے نشر کی ہیں۔

9 تبصرے:

rdugardening.blogspot.com کہا...

لگے رہو بچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پکے راگ کی طرح پکے استاد نے تجھے شاگردی میں قبولا ہے ، بس اب استاد کی لاج رکھیو ۔۔۔ لکھتے رہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی دعائیں تمہارے ساتھ ہیں

گمنام کہا...

بھائی میرے تیرے پہ روز ایک پوسٹ واجب ہے
فیس بک پہ گند کم ڈالا کر اور بلاگ پہ دھیان دے
آنے والا ٹیم بس تیرا ہی ہے
یو راک بے بی ;) ۔

ضیاء الحسن خان کہا...

اسکو کہتے ہیں آتنگ وادی پوسٹ، پیلا ٹو ہے بھائی تو

MAniFani کہا...

اہاں

Unknown کہا...

شکریہ

Unknown کہا...

شکریہ ضیاء الحسن خان بھای

Unknown کہا...

اموااااں

Unknown کہا...

شکریہ ملک ساب

گمنام کہا...

اچھا لکھا