سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2016-07-20

آپریشن تیسیکرلر

15 جولائی دوپہر 2 بج کر 26 منٹ، جنرل اونورلو کے وٹ سیپ پ ایک میسج موصول ہوتا ہے، جنرل کی پیشانی پر بل؟ اپنے 22 سالہ کیرئیر میں کبھی کسی نے جنرل کو پریشان ہوتے نہی دیکھا، بڑے ہی دشوار گزار مرحلے آئے، بڑے ہی کٹھن سفر طے کئے گئے مگر جنرل کے ماتھے پر کبھی شکن نہی آئی تو آج ایسا کیا ہوا، کولیگز ابھی اسی سوچ و بچار میں تھے کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے فوری رائونڈ ٹیبل کانفرس طلب کرلی، شام 4 بجے اجلاس شروع ہوا جو انتہائی خفیہ رکھا گیا، میڈیا کو کان و کان خبر ناں ہونے دی، ڈیڑھ گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں اہم ترین فیصلے کئے گئے۔ فوجی ہیڈ کوارٹر میں مانیٹرنگ سیل قائم کردیا گیا، محض ایک گھنٹے کے شارٹ نوٹس پر 300 ایس ایس جیز کمانڈوز تیار تھے، جنرل اورنورلو نے کمانڈوز کو آشیر باد دیا اور الواداع کہا جس کے بعد طیاروں نے پرواز بھرنا شروع کردی، یوں آغاز ہوا بظاہر ناممکن نظر آنے والے اس "آپریشن تیسیکرلر" کا۔

رات 8 بج کر 39 منٹ، باغیوں نے سرکاری ٹی وی سے اعلان کردیا کہ ملک کو اس وقت ایک عبوری کونسل چلارہی ہے، وزیر اعظم کو معزول کردیا گیا جبکہ صدر اور آرمی چیف کو یرغمال بنالیا گیا ہے، پورے ملک میں انٹرنیٹ اور نجی ٹی وی چینلز کی نشریات بھی بند کردی گئیں، لوگوں میں خوف کا عالم تھا، عوام اپنے مستقبل کے حوالہ سے پریشان تھی، اے ٹی ایم کی لائن میں لگے یوگوشا نے پکوچو سے پوچھا کیا ہمیں بچانے کوئی مسیحا نہیں آئے گا؟ اس سے پہلے کہ پکوچو یوگوشا کو جواب دیتا لوگوں نے آسمان کی طرف اشارے کرتے ہوئے شور مچانا شروع کردیا، دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی، ایس ایس جیز کمانڈوز نے اپنا کام شروع کردیا تھا، لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایس ایس جیز کمانڈوز ٹنگڑی مار کر ٹینکوں کو گراتے اور اس میں سے فوجی نکال کر گرفتار کرلیتے، پتھروں کا لنگر بناکر ایسی قوت سے پھینکتے کہ ہیلی کاپٹر زمین پر آگرتا، تھری جی ایسی مہارت سے چلاتے کہ ایک ایک گولی ریورس سوئنگ ہوکر تین تین باغی قتل کرتی، محض 4 گھنٹوں میں ملک سے باغیوں کا صفایا کرکے استنبول کی پہاڑیوں پر سبز پرچم لہرا کر اسٹیٹ کی رٹ بحال کردی گئی، شہر کے مشہور تقسیم اسکوائر پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی اور"تیسیکرلر" تیسیکرلر" کے نعرے لگنا شروع ہوگئے، صدر صاحب بھی قوم سے خطاب کرنے تقسیم اسکوائر پہنچ گئے۔

تو جب صدر ساب نے خطاب شروع کرنا چاہا تو ایک صحافی نے سوال کیا کہ اردگان ساب کیا کہنا چاہیں گے آپ جنرل اورنورلو فوج کے ایس ایس جیز کمانڈوز کے بارے میں جن کی بر وقت امداد کے سبب آپ بغاوت کو کچلنے میں کامیاب ہوئے؟

صدر ساب نے انتہائی ناگواری سے صحافی کی جانب دیکھا اور نہایت تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ایس ایس جیز کمانڈوز؟ اور پائن کتھے او؟ وہ تو ہماری عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر بچائی ہے جمہوریت

صحافی بولا، لیکن سر اردگان وہ پاکستانی فیس بکی پیجز ۔ ۔ ۔

صدر اردگان کو شدید غصہ آیا اور انہوں نے اپنے مترجم کو 4 گندی گندی گالیوں کا اردو ترجمہ کرنے کو کہا، اتنے میں ساتھ کھڑے پاکستانی سفیر معاملہ بھانپ گئے اور صدر سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے، اردگان پائن تہاڈے طیارے وی تو کشمیر آندے جاندے ریندے آں، ہم کبھی شکایت کئے؟ یہ فیس بکی دھندے ہیں، بہت سوں کی روزی روٹی لگی ہوتی ہے اس سے، پلیز جانے دیں۔ اسکے بعد سفیر ساب نے اپنی فیس بک لاگن کرکے اردگان ساب کو کچھ مزید "مزے مزے کی" پوسٹیں، مشبرے اور "ریسیپیز" پڑھائیں جن سے ترک صدر کا غصہ جاتا رہا اور محفل زعفرانی ہوگئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔






جس کے بعد ترک صدر نے "تیسیکرلر جنرل اورنولو" کا نعرہ لگایا اور اپنے خطاب میں پاکستانی فیس بکی پیجز کے ایڈمنان اور دانشوروں کا شکریہ ادا کیا، ایک موقع پر جب انہوں نے پوسٹ دیکھی جس پر لکھا تھا "کوئی کافر ہی ہوگا جو شیئر نہی کرے گا" تو انکی آنکھیں بھر آئیں۔ ترک صدر نے اپنے خطاب میں قیامت تک آنے والے آمروں کو ایک مشورہ بھی دیا کہ آئندہ جب بھی مارشل لا لگائیں تو انٹرنیٹ پر پابندی کبھی نہ لگائین ورنہ فیس بک سے بچھڑے دانشور ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر خود کشی کرنے آجاتے ہیں، اپنے خطاب میں ترک صدر نے نواز شریف کی نیک خواہشات پر انکا شکریہ ادا کیا اور کہا "جاگتے رہنا ساڈے تے ناں رہنا"

ختم شد


کوئی تبصرے نہیں: