سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2015-05-23

یہ ہی بچہ

بلاشبہ بچے کائنات کی حسین ترین مخلوق میں سے ہیں۔ رب تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہماری دھرتی کو بچوں جیسی انمول نعمت، رحمت اور برکت سے نوازا ہے۔ یقین جانیئے کہ اگر اس دہشت زدہ ماحول میں ہمیں بچوں کی مسکراہٹیں  دیکھنا نصیب نہ ہوں تو آدھی دنیا نفسیاتی امراض میں مبتلاء ہوجائے۔ اگر اس گھٹن زدہ زیست میں چند لمحے بچوں کی قلقاریاں سننے کو نہ ملیں تو زمانہ صمن بکمن ہوجائے۔ اگر بچوں کے معصومانہ سوالات ہمارے لیے مسرتوں کا سامان نہ کریں تو ہماری حس مزاح تو ''پنجابی اسٹیج ڈرامے'' دیکھ دیکھ کر ہی مرجائے۔

لہذاٰ ہمیں بچوں کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ان کے چہروں کی شادابی دیکھر کر ہمیں روز جینے کی نئی امنگ اور نئی ترنگ نصیب ہوتی ہے۔ معصومانہ سوالات، میٹھی میٹھی باتیں، پیاری پیاری شرارتیں، پھول جیسی مسکراہٹیں، فرشتوں جیسی آہٹیں، یہ دلنشیں سا جذبہ جو محب کو ہمیشہ مسرور رکھتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ 

بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ جس گھر میں بچے نہ ہوں وہ گھر نہی مکان لگتا ہے،
اور جس آنگن میں بچے نہ کھیلیں وہ جنگل بیابان لگتا ہے،
جس پیڑ کے نیچے بچے جھولا نہ جھولیں، وہ پیڑ سوکھ جاتا ہے،
بچہ جس کھلونے سے کھیلنا چھوڑ دے، وہ کھلونا ٹوٹ جاتا ہے،
اور جس انسان سے بچہ روٹھ جائے، اس سے سارا جہان روٹھ جاتا ہے۔
ہندو دھرم میں تو بچوں کو ''بھگوان کا روپ'' مانا جاتا ہے، اور بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں، پھر کیا مذہب، کیا علاقہ، کیا قومیت اور کیا نسل۔ ایک چور ڈکیت اور چوڑے چمار کا بچہ بھی اس کے لیے اتنا ہی خوبصورت اور معصوم ہوتا ہے جتنا کہ آپ کا اور ہمارا۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ اپنے دشمن کے بچے سے نفرت کرنا بھی اتنا آسان نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ مگر۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر آخر اس بچے میں ایسا کیا تھا جو ہمارا دل اس کے کان کے نیچے دھرنے کو کر رہا ہے۔ ۔ ۔جی ہاں یہ ہی بچہ۔ ۔ ۔   



شعوری طور پر لاشعور میں کئی بے ربط خیالات گردش کر رہے تھے اور ادھر یہ چوڑے ہونٹ، چپٹے ماتھے اور نیم بنجر سر والے شخص کی کراہت آمیز آواز ہمارے کان کے پردوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ہم شادی کی تقریب میں بیٹھے پھول جیسے بچوں کو سوچ رہے تھے، گلاب جیسے چہروں کو تاڑ رہے تھے، خچر جیسی آواز سن رہے تھے اور ہر 15 سیکنڈ کے وقفے سے ایک روائیتی سی ہنکاری(ہونہہ) مار رہے تھے۔ مگر ''نور بھائی'' ہماری بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دبئی اور سنگاپور کے سچے جھوٹے قصے سنائے جارہے تھے۔ بل آخر ہمت کی، نشست سے اٹھے، بائیں ہاتھ کی چنگلی آسمان کی جانب بلند کی اور ''آتا ہوں ابھی'' کی ''ڈگری'' کرا کے کٹنا چاہا۔ اگلے ہی لمحے نور بھائی کی گود میں بیٹھے ''ڈیڑھ سالہ شخص'' جوکہ نور بھائی کی ہی ''مائکرو کاپی'' تھا نے ہم پر فدائی حملہ کردیا اور فضاء ''آؤں غاؤں شاؤں'' کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ جیسے تیسے ''میٹرکس'' کی طرح ''ریورس سوئپ'' ایکشن میں خود کو بچایا اور ''ابے چل! بھوتنی کے'' کہہ کر کٹ لیے۔

یہ ہی وہ بچہ تھا جو ہمیں دنیا کا سب سے بڑا ''سامراج'' نظر آرہا تھا، یہ ہی بچہ ہمیں ''استعماری قوتوں'' کا ''ایجنٹ'' دکھائی دے رہا تھا، ہمارے لیے جنگ عظیم اول و دوئم کی ساری تباہ کاریوں کا ذمہ دار بھی یہ ہی بچہ تھا، شائد میخائل نے کلاشنکوف، افریڈ نوبل نے ڈائنامائٹ اورآئن اسٹائن نے ایٹم بم اسی بچے کے واسطے ایجاد کیے تھے۔ یہ ہی بچہ ہمارے ''اڈیالہ جیل'' میں قید دل کا ''پرویز مشرف'' تھا، یہ ہی بچہ ہماری ''جمہوری حکومت'' پر ''شب خون'' ثابت ہوا تھا، ہماری ''منتخب حکومت'' کی بساط لپیٹنے والا شخص اسی بچے کا باپ تھا، ہمیں ''اصلی ڈگری کیس'' میں ''ڈی گریڈ'' کرکے ''نا اہلی'' کا فیصلہ سنانے والا ''چیف جسٹس'' اسی بچے کا نانا تھا، اسی بچے کی خالہ ہمارے ہنستے بستے ''رنگین'' کراچی جیسے دل کے لیے ''ایم کیو ایم'' ثابت ہوئی تھی۔ وہ ''مینڈیٹ'' جو کبھی ہمارا ہوا کرتا تھا، آج غیر کے پاس تھا، تو آخر کیوں نہ جلتے ہم انتقام کی آگ میں۔ ۔ ۔ کیوں نہ برا لگتا ہمیں یہ بے ضرر سا ''ڈیڑھ سالہ شخص''۔ ۔ ۔ ۔جی ہاں یہ ہی بچہ۔ ۔ ۔ ۔ 

اس دن ہم پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ آپ چاہے بچوں سے محبت کے کتنے بڑے ہی دعویٰ دار ہوں، چنے منوں کے کتنے ہی دلدادہ ہوں، مگر آپ کی ''پہلی محبت'' کا بچہ آپ کو ایک ''زہر قاتل'' اور ''ڈراؤنا خواب'' ہی نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ آپ کے سارے ''مدر ٹریسائی جذبات'' لمحوں میں خاک ہوجاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ کیوںکہ آپ کی ''پہلی محبت'' کا بچہ آپ سے کسی ''مامتا'' یا ''باپتا'' کا نہیں بلکہ ''ماموں تا'' کا متقاضی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 


کوئی تبصرے نہیں: