سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2015-08-31

چوتھی بار کا ذکر

چوتھی بار کا ذکر ہے کہ رات کا ٹائم بج رہا تھا۔۔ آسمان پر کتے چمکرے تھے۔۔ گلی میں تارے بھونک رے تھے۔۔۔ اور ایک کھٹارا سا ''وڑائچ طیارہ'' نیشنل ہائی وے پر کتے کی طریوں دوڑ رہا تھا
چھوکا چھک چھوکا چھوک چھوکا چھک پوووونپ چھوکا چھک چھوکا چھک۔۔۔ کہ اچانک۔۔۔ بوڑی مائی جو مالٹے کھاری تھی اس کے ہاتھ سے مالٹے گر پڑے، دھوتی پینے چچا جوگنڈیریاں چوپ رہے تھے انہوں نے گنڈیریاں بس سے باہر کلٹی کردیں، فوزی جو سفر کاٹنے کیلئے ''شعاع'' پڑھ رہی تھی اسنے رسالہ باہر پھینک کر آئندہ نہ پڑھنے کی قسم کھالی۔۔۔ جو سورا تھا وہ جاگ گیا اور جو جاگ را تھا وہ بیہوش ہوگیا۔۔۔ جس کو کلمہ آتا تھا وہ کلمہ پڑھنے لگا جس کو نہی آتا تھا وہ ''جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو'' پڑھنے لگا۔۔۔غرض پوری بس میں افرا تفری، دھما چوکڑی مچ گئی۔۔۔پوری بس میں خوف کے بادل چھائے وے تھے۔۔۔ اور کہیں کہیں جزوی طور پر برس کر بس اور کپڑے ناپاک بھی کرچکے تھے۔۔۔
ایسے میں بس ایک خوب صورت، غبرو، نورانی چہرے والا نوجوان تھا جو دونیا و مافیا سے بے نیاز چہرے پر تبسم سجائے انتہائی مطمئین بیٹھا تھا۔۔۔ جسے دیکھ کر بس واسی بہت حیران کن پریشان تھے۔۔۔خیر! معززین بس نے نوجوان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ ایک بزرگ چچا جو غالبن انور مقصود اور قاضی واجد کے مشترکہ کزن تھے گویا ہوئے۔۔۔ تو کون ہے اے درویش صفت انسان۔۔۔ کیا تو دیکھتا نہیں، بس میں کس قدر دھما چوکڑی مچی ہوی ہے۔۔۔ ہر پاسے نفسا نفسی کا عالم ہے۔۔ بھائی بھائی کو نہیں پہچانرا۔۔ دوست دوست کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں۔۔۔ جی ایف/بی ایف ہر رشتہ بیگانہ ہوچکا۔۔۔۔ سب کو فکر ہے تو بس اپنی جان کی۔۔ ہر طرف خوف کے ڈیرے ہیں۔۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا اگلے لمحے کیا ہونا والا ہے۔۔۔ نہ جانے ہم میں سے کون بچے۔۔۔ اور کون لقمہ اجل بن جائے۔۔۔۔ جان تو سب کو پیاری کو ہوتی ہے ناں۔۔۔ تو آخر وہ کیا چیز ہے جس نے تجھے موت سے بیگانہ کررکھا ہے۔۔۔ آخر ترے پاس ایسا کونسا حکیم لقمان کا نسخہ ہے۔۔۔۔ جو تجھے موت کے ڈر سے آزاد کئے ہوئے ہے۔۔۔ یا تو نے ایسی کونسی ریاضتیں کر رکھی ہیں۔۔ کہ تجھے یقین کامل ہے۔۔ توبچ جائے گا۔۔ یا سیدھا جنت میں جائے گا؟۔۔ کیا تو خلق خدا کو دیکھتا نہی؟۔۔۔ کیا تجھے خبر نہیں عنقریب ہم سب موت کی وادی میں دھکیل دئے جائیں گے؟۔۔۔۔کیا تو جانتا نہی بس کے بریک فیل ہوچکے ہیں؟۔۔۔ آخر وہ راز ہم پر بھی تو عیاں ہو جسکے سسبب تومطمئن بیٹھا ہے۔۔۔ وہ بھید ہم بھی تو جانیں جسکے باعث تو دنیا و مافیا سے بے نیاز پڑا ہے۔۔۔آخر کب تک یہ مہر خموشی لونڈے آخر کب تک؟۔۔۔۔ کچھ بولتا کیوں نہیں تو اے مرد درویش؟۔۔۔ آخر کب تک یوں زندہ لاش بنا بیٹھا رہے گا؟۔۔۔۔ ابے تجھ سے بول رہے ہیں اوئے بووول ناں!
بس اگلے ہی لمحے اس درویش صفت نوجوان نے نگاہ اٹھا کے اپنے گرد جھمگھٹا لگائے معززین کے وفد کو دیکھا۔۔۔ کھڑکی کا شیشہ کھول کے مین پوری کا شوربہ تھوکا۔۔۔۔ اور کانوں سے ٹونٹیاں نکال کے بولا۔۔۔ کیا ہے بے، یہ تم سب گدھ بن کے میرے آجو باجو کیوں کھڑے ہو ہاں؟ یاں میت ہونے والی میری؟ حالت نزع میں دکھرا میں تمہیں؟ چلو جاﺅ شاباش کام کرو اپنا اپنا۔۔۔۔
لیکن بیٹا وہ بس کے بریک فیل۔۔۔
کیا؟ بس کے بریک فیل؟ بچاﺅ بچاﺅ بچاﺅ۔۔۔۔۔ کوئی روکو پلیز۔۔۔۔ ہیلپ ہیلپ۔۔۔ یا اللہ پلیز 
 

کوئی تبصرے نہیں: