سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2014-01-27

سقوط در سقوط ۔ ۔ ۔ ۔

سقوط  در سقوط ۔ ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں کہ جب ہلاکو خان مسلمانوں پر حملے کے لیئے لشکر تیار کر رہا تھا ۔تو مسلمان قران کے مخلوق ہونے پر بحث میں مصروف تھے۔
نومبر 2013 میں جب ایسا نظر آنے لگا تھا ۔کہ تحریک طالبان اور ریاست پاکستان کے درمیان مزاکرات کا آغاز ہونے والا ہے ۔ایسے میں سرتاج عزیز کی زبان پھسلی۔ اور وہ یہ کہہ گئے کہ امریکا نے انہیں ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے،۔بس پھر کیا تھا صاحب بہادر کی غیرت کو ابال آیا ۔اور دیا ایک ٹکا کہ سرتاج عزیز کی ناک کے نیچے۔ لو کرلو مذاکرات! ۔یہ ڈرون  حملہ بھی ایک مدرسے پہ کیا گیا تھا ۔جس کے نتیجے میں 9 افراد ہلاک ہوئے۔(شہید لکھنے پر امداد بند ہونے کا خدشہ تھا۔)   48 گھنٹوں بعد ملک کا وزیر داخلہ ہوش میں آتا ہے ۔اور بیان دیتا ہے کہ ہمیں ڈالروں اور عزت نفس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ سوچنا کیا جی۔   ہوگیا انتخاب۔ 25 نورے کے 25 شیدے کے  5،5  ا ن قلم کاروں کے۔
 بقول شخصے“ : ۔یہ عزت تو آنی جانی ہے۔ اس عزت کی کوئی بات نہیں۔”
کچھ بے وقوف لوگ۔ نیٹو سپلا ئی روک کہ بیٹھ گئے ۔بھلا بتاؤ اس سے امریکہ پہ کیا اثر کرنا پڑنا۔ میڈیا ایسے دھاڑیں مار رہا تھا۔ جیسے گاڑی کے نیچے سوئے ہوئے کتے کو پتھر مار دیا ہو۔ دیکھو یہ دھرنے ورنے کسی مسلئے کا حل نہیں ہوتے۔ تمہاری وجہ سے عام آدمی کے بچے رکشے میں پیدا ہو رہے ہیں۔ عام آدمی بھی وزیرستانیوں کو کوسنے لگا۔ کیونکہ اُسے تو  ''پکچر''  میں دیکھا یاہی یہ گیا تھا۔ وزیرستان تو ہے ہی دہشتگردوں کی فیکٹری۔انہیں تو مرنے مارنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے ۔کہ قیام پاکستان سے امریکی مداخلت تک یہاں مثالی امن قائم رہا۔ پاکستان کے لیئے سب سے زیادہ قربانیاں یہیں کے لوگوں نے دیں۔ تاہم ان کی ہمت شجاعت پر بھی کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ 1701 میں مغلوں سے جنگ ہو۔ یا ۔1893 میں فرنگی استعمار سے ۔جب محی الدین محسود المعروف  ''ملا پاؤندہ''  نے وزیر، محسود، بنگش، مہمند اور دیگر قبائل سے مل کر فرنگیوں کو اس علاقے سے باہر نکال دیا۔ 1938 تک یہ خطہ فرنگی سامراج کے لیئے قبرستان ثابت ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ” دی گریٹ ایمپائر“ برطانیہ جس کو اس بات پر غرور تھا ۔کہ اس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا ۔پورے برصغیر پر حکومت کرتا رہا ۔مگر اس چھوٹے سے علاقے پر  حکومت نہ کرسکا۔ پرویز مشرف نے اس علاقے میں۔ افواج یہ کہہ کر بھجوایئں ۔کہ یہ پانچ چھ سو عسکریت پسند ہیں ۔اور دس سال بعد  بھی جیٹ طیارے وہاں آگ برسا رہے ہیں۔ تو آج بھی ہمارے دانشور ان ۔عسکریت پسندوں کی تعداد پانچ چھ سو ہی بتاتے ہیں۔ پڑوسی اسلامی ملک پر حملے کے لیئے ۔ہم نے استعماری قوتوں کے بازو مظبوط کیئے۔ اور جواز ”قومی مفاد“ اور ”ملکی سلامتی“ کو بنایا۔ جب تک یہ حملے افغانستان اور عراق میں ہو رہے تھے۔ تو ہم اپنی ”قومی سلامتی“ کا جشن منا رہے تھے ۔اور آج جب یہ آگ اپنے گھر تک پہنچ گئی تو چلاتے پھرتے ہیں۔
بقول اقبال: ”ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے“۔
بنگلہ دیش کاسانحہ سب کے سامنے ہے۔ بلوچ قوم پرستی اپنے عروج پر ہے۔ سندھ کے قوم پرست ایک دن میں 38 کریکر حملے کرتے ہیں۔ اور ڈیونڈ رلائن  کا معاملہ بھی کب شدت اختیار کر جائے ؟۔کچھ پتہ نہیں۔ بہر حال یہاں ہر طبقہ فکر کی جیب میں۔ دو لسٹیں لازمی ملیں گی۔ ایک ”شہید“ کی اور دوسری”ہلاک“ کی۔ دکانداری کے لیئے اس سے اچھا موضوع بھی کوئی نہیں۔
کہتے ہیں کہ جب ہلاکو خان مسلمانوں پر حملے کے لیئے لشکر تیار کر رہا تھا۔ تو مسلمان قران کے مخلوق ہونے پر بحث میں مصروف تھے۔


4 تبصرے:

DuFFeR - ڈفر کہا...

کہتے ہیں جب کارگل میں انگلی دی جا رہی تھی تو نوازشریف صاحب پرائم منسٹرہاؤس میں تھائی مساج کرا رہے تھے
کہتے ہیں کہ جب پاکستانی عوام کی چکم چکائی کی جا رہی تھی تو مشرف صاحب ڈھولکی کی تھاپ پر ناچ رہے تھے
کہتے ہیں جب پاکستان عوام کے پرخچے اڑائے جا رہے تھے تو زرداری صاحب شرمیلا کی ٹانگوں میں منہ دئے بیٹھے تھے
کہتے ہیں جب پاکستانی عوام ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر رہی تھی تو پاک آرمی ڈالر وصول کر کے گنتی کرنے میں مصروف تھی
کہتے ہیں جب پاکستان پر چاروں طرف سے دشمن حملہ آور تھے تو وزیراعظم صاحب پھجے کی نہاری کھا رہے تھے

Unknown کہا...

یہ ہوئی نا بات بہت خوب .جاری رکھیں

Unknown کہا...

انشا اللہ

Unknown کہا...

ہاہاہا