کیوں میں ہی کیوں؟ آخر میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ایسا؟ زندگی میں جس کو ٹوٹ کر چاہا سالا اسی نے دھوکہ دیا۔ اب تو اعتبار ہی اٹھ گیا زندگی سے۔ ساحل کنارے چائینا کے موبائیل سے تیز آواز میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے چلائے ''لڑکا'' کافی فلمی فلمی محسوس کر رہا تھا۔ پیچھے بینچ پر بیٹھا دوست مفتے کی ''کول ڈرینکیں''سوت رہا تھا اور ''لڑکا'' اپنے غموں کو ''گولڈ لیف'' کے دھوئیں میں اڑاتے ہوئے اپنی پہلی محبت کی ناکامی کا قصہ سنا رہا تھا۔
''لڑکا'' آج کافی اداس تھا۔ یہ اداسی بے سبب نہ تھی، بلکہ اس اداسی کی وجہ صبح صبح موصول ہونے والا وہ شادی کارڈ تھا جس میں لڑکے کو اس کی پہلی محبت کی شادی کی دعوت دی گئی تھی۔ کارڈ پر اپنی پہلی محبت کا نام اس کی سرگودھے والی پھوپی کے لڑکے کے ساتھ پڑھ کر ''لڑکے'' کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور دل کی چوبیس کلو میٹر اتھاہ گہرائیوں سے اک درد ناک آہ نکلی۔ کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں لیکن ذلیل زمین پر ہی آکہ ہوتے ہیں۔ ''لڑکے'' کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ اس اچانک ملنے والے صدمہ بے پناہ کا فوری اثر عشق کے ہاتھوں تباہ شدہ بچے کچھے دماغ پر ہوا اور اسکا ذہن پلک جپکھتے ہی ریورس گیئر لگا کہ بیک گراؤنڈ پہ ''وہ پہلی بار جب ہم ملے'' والا گانا چلا کہ زندگی کے سب سے دردناک خوشگوار واقع میں کھوگیا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا کالج کا وہ پہلا دن جب کلاس کی آٹھ لڑکیوں میں سے اسے صرف پانچ اچھی لگیں۔ لیکن نیلے پرنٹ والا لیلن کا سوٹ پہنے ''دردانہ'' اسے پہلی ہی نظر میں بھا گئی۔ ''دردانہ'' کو دیکھتے ہی اس کے دل میں گھنٹی بجنا شروع ہوگئی ٹن ٹن ٹن۔ ''دردانہ'' لیکچر کے دوران لکھتے لکھتے اچانک سر اٹھاتی بال پین
سے اپنا سر کجھاتی اور ہلکا سا مسکرا کر واپس لکھنے لگ جاتی۔۔ وہ ساری زندگی اسی شش و پنج میں رہا کہ ایسا وہ اسے انسپائیر کرنے کے لیئے کرتی تھی یا پھر اسے جوئیں تنگ کرتی تھیں۔ وہ ناک سڑ سڑ کر کہ انگلی سے پونچنا، وہ چیونگم کھا کہ غبارے پھاڑنا، گویا ''دردانہ'' کی ہر ادا ہی اس دل میں ایک نشتر چھبھا جاتی۔ شروع میں تو وہ پینسل اسکیل لینے دینے کے بہانے اس سے بات کرتا لیکن پھر جلد ہی ان کی دوستی ہوگئی اور یہ دوستی کب پیار میں بدل گئی معلوم ہی نہ ہوا۔ سال کا وہ آخری دن بھی آن پونھچھا یعنی فیورل پارٹی جس میں سب ہی نے خوب انجوائے کیا اور ان دونوں نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں۔۔ ''دردانہ'' تو امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی لیکن وہ دس بارہ نمبروں کے فرق سے چار مضامین میں فیل ہوگیا۔ کلاسز کا دوبارہ آغاز ہوا تو وہ اپنی پہلی محبت کو خود سے ایک کلاس دور پاکر کافی ہرٹ ہوا۔ نئے کلاس فیلوز میں لڑکیوں کی تعداد پچھلے سال سے بھی کم یعنی صرف تین تھی اس لیئے ''بے عزت افزائی'' کا بھی کوئی خاص خوف نہ تھا اور ویسے بھی اس کے حوش و حواس پر تو صرف اس کی پہلی محبت کا خمار چھایا ہوا تھا۔ کلاسیں الگ الگ ہوجانے کی وجہ سے ان کی ملاقاتیں کم ہی ہوتی تھیں اس لیئے اب انہوں نے قائید اعظم کے مزار اور سفاری پارک وغیرہ جانا شروع کردیا تھا اور .اور یوں ایک اور سال بھی نکل گیا۔
اس سال امتحانات کا نتیجہ آیا تو وہ صرف تین مضامین میں فیل ہوا تھا اور ''دردانہ'' ایک بار پھر اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی۔ اس کا دکھ شدید ہوگیا تھا کیوں کہ ''دردانہ'' اب یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے رہی تھی اور وہ اسی کلاس میں تھا۔ اسے کیوں کہ دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کا سلیقہ آتا تھا اس لیئے وہ یہ زہر کا گھونٹ بھی پی گیا۔ گریجویشن کرنے کے بعد ''دردانہ'' نے پڑھائی چھوڑ دی معلوم کرنے پر پتا چلا کہ دردانہ کے لیئے رشتہ آیا ہے۔ اس نے دردانہ سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی رابطہ نہ ہوا۔
''لڑکے'' کا حافظہ واپسی ''نیوٹرل گئیر'' پر آیا اور اس بار بیک گراؤنڈ میں ''دل میرا توڑ دیا اس نے برا کیوں مانوں'' والا گانا چل رہا تھا۔ شادی کا کارڈ دیکھ کر ''لڑکے'' کی پریشانی دوگنی ہوگئی تھی۔ ایک تو پہلے ہی گیارہویں جماعت کے امتحانوں کی ٹینشن اور اب یہ ''پہلی محبت کی شادی''۔ گویا اب جینے کا مقصد ہی ختم ہوگیا ''لڑکے'' نے دوست کو فون کیا اور اس کے ساتھ ساحل سمندر پر جانے کو کہا۔
اور اب وہی دوست مفتے کی ''کول ڈرینکیں'' سوتتے ہوئے اسے ہمدردانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور وہ گولڈ لیف'' کے دھوئیں میں اپنے غم کو اڑاتے ہوۓ اسے اپنی پہلی محبت کی ناکامی کا قصہ سنا رہا تھا۔ اچانک ایک سریلی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی .اسے نے پلٹ کر دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا ایک دوشیزہ فیشن کے نام پر ویلڈروں والے گلاسیز لگاۓ کھڑی تھی۔
لڑکا: جی فرمائیں۔
لڑکی: کہیں آپ وہ تو نہیں؟
لڑکا؛ جی میں وہی ہوں لیکن آپ کون؟
لڑکی: ارے میں وہ۔
لڑکا: اوہ تو آپ وہ ہیں۔
لڑکے کے دل میں ایک بار پھر گھنٹی بجنے لگی ٹن ٹن ٹن۔
لڑکی: تو آپ کیا کر رہے ہیں آج کل؟
لڑکا: میں کنڈر گارڈن کالج میں۔ ۔ ۔ ۔
لڑکی: اس کی بات کاٹتے ہوۓ اچھا تو آپ لیکچرار ہیں کنڈر گارڈن کالج میں
لڑکا: جی جی!
لڑکی: میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ہم دوبارہ مل بھی پائیں گے۔
لڑکا: وہ کہتے ہیں نہ اگر کسی کو سچے دل سے چاہو تو ساری کائینات تمہیں اس سے ملانے میں لگ جاتی ہے۔
لڑکی: تم اب تک امی سے ڈرتے ہو؟
لڑکا: جان لٹانے والی نظروں سے چلو نہ جھولوں کی طرف چلتے ہیں
کافی دیر پیار بھری باتیں کرنے کے بعد وہ اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کہ وہاں سے چلا آیا۔ اس اچانک ہونے والی ملاقات سے وہ بہت خوش تھا اور ہوتا بھی کیوں نہ آخر اسے اس کی پہلی محبت جو مل چکی تھی۔ جی ہاں پہلی محبت اس ملاقات کے بعد اسے احساس ہوا کہ در حقیقت اس کی پہلی محبت گیارہویں جماعت کی کلاس فیلو ''دردانہ'' تھی ہی نہیں۔ بلکہ اس کی پہلی محبت تو ساتویں جماعت کی کلاس فیلو ''انوری'' ہے جس سے کچھ دیر پہلے ہی ملاقات کر کہ وہ گھر پونھچا تھا۔ لڑکے کی خوشی اتنی شدید تھی کہ اب وہ اسے لفظوں میں پرونا چاہتا تھا۔
شششش ''لڑکا'' پوسٹ لکھ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔
3 تبصرے:
یو میڈ مائی ڈے۔ تھینک یو ویری مچ جناب۔ اور کب لکھ رہے ہیں؟
جلد ہی انشا اللہ
از احمر
بہت خوب
ایک تبصرہ شائع کریں