اس سنڈے میرے ساتھ جو بیتا نہ وہ ہے تو نا قابل بیان مگر کیا کروں بیان کیئے بنا کلیجے کو ٹھنڈک بھی نہیں پڑنی۔ ایک درد ناک ''آب پیتی'' بیان کرنے کی ادنیٰ سی جسارت کر رہا ہوں اگر لغزش کی بورڈ کے باعث کوئی غلطی کوتاہی ہوجائے تو بنا فیل کیئے ہی صرف نظر کر جایئے گا۔ ممکن ہے ایکسائیٹ مینٹ کے مارے کوئی بات ایک کی ڈبل ٹرپل چبل یا چول بھی کر جاؤں مگر آپ نے فیل نہی کرنی اچھا!
ہاں تو ''کر کرا کہ'' ہوا یوں کہ ہر سنڈے کی طرح اس سنڈے بھی روٹین بہت ہی ٹف تھی یعنی وہی کھانا پینا نہانا دھونا سونا فیس بکنا اور ''ایکسٹرا کلاس''۔ پھر ہوا یوں کہ صبحو صبحو ہماری آنکھ کھل گئی تو نیم مدہوشی کی حالت میں فیس بک کھولی تھوڑا سی چیٹا چاٹی کی پھر ناشتے کی طلب بھی ہوئی دانا کے قول کے عین مطابق صبحو کا ناشتہ حلوہ پوری سے کرکہ اخبار گھول کہ پی کہ نہا دھو کہ قیلولہ کر کہ اور ''کر کرا کہ'' بیدار ہوا تو معلوم پڑا کہ گھڑی کی سوئیاں پانچ بجانے پہ تلی ہوئیں ہیں جو کہ ہماری ''ایکسٹرا کلاس'' کا ٹائیم ہے۔ لو بئی پھر جلدی جلدی پرپل والے لکس سے موں دھویا ترچھی مانگ نکال کہ پف بنائی کالا چشمہ تھوبڑے پہ سجایا اور بائیک اسٹارٹ کرکہ مکینک کی دوکان پہ پونچھا، پونھچھا ہی تھا کہ ''خورشید بیگم پارک'' کے گیٹ پہ کھڑے ''کلاس فیلو'' کی مس کالیں آنا شروع ہوگئیں۔ خیر بڑی مشکل سے ''دادی کی دواؤں'' کی ٹوپی کراکہ پندرا منٹ کی مہلت مانگی۔
اور کیا اگر موٹر سائیکل کا ''اگلا بریک'' ہی ٹائیٹ نہ ہو تو فائیدہ ایسی ''ایکسٹرا کلاس'' کا۔
ہاں تو میں یہ کہرا تھا کہ پھر ''کر کرا کہ'' ''خورشید بیگم پارک'' پونچھا اور ایک بیچ پر بیٹھ کے ہم گولا گنڈا کھاتے ہوئے ''موسم کی صورتحال'' پر گفتگو کرنے لگے۔ جیسے ہی ہم ''انتہائی نازک موڑ'' پہ پونچنے لگے تو چیاؤں میاؤں کی آوازیں آنے لگیں پیچھے دیکھا تو دو بچے ہماری طرف نظر جمائے گیند سے ''کیچ کیچ'' کھیلنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے ''کیچنگ کیچنگ'' کر رہے ہیں۔ میں نے بچوں کو سمجھا بجھا کہ وہاں سے بھگا تو دیا مگر بچے تو ہوتے ہی من کے سچے ہیں نہ، وہ ہر تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی بہانے سے ہمارے پیچھے آکہ کھڑے ہوجاتے۔
محمکہ بہبود آبادی والوں کو ''اچھے لفظوں'' میں یاد کرتے ہوئے میں بچوں کی طرف بڑھا تو قدم جیسے رک سے گئے، کیا دیکھتا ہوں کہ بیس پچیس بچوں کا ریوڑ ایک دوسرے سے الجھ رہا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے فضاء میں ایک موٹی سی گالی کی گونج اٹھی اور اگلے ہی لمحے سب بچے آپس میں گتھم گتھا۔
میں نے پلٹ کر دیکھا تو ''کلاس فیلو'' کی نطریں میری ہی جانب تھیں۔ پتہ نہیں کیوں اس کی آنکھوں میں مجھے ایک عجیب سی چمک نظر آئی اور اسی لمحے دل نے فیصلہ کرلیا کہ بیٹے یہی موقعہ ہے ''سلمان خانی'' دکھانے کا، اللہ کے فضل سے سب ہی بچے ''ہالٖف ٹکٹ'' تھے اس لیئے کسی مزاحمت کا بھی ڈر نہ تھا، میں نے دو چار کی گدیاں گرم کیں اور سب بچوں کو وہاں سے کلٹی کرادیا۔ واپس آکر بینچ پر بیٹھا اور ''سلمان خانی'' ایکشن ڈائیلاگ مارا ابھی رومانٹک ڈائیلاگ کی باری آنے ہی والی تھی کہ میرا ہاتھ جیبوں پر گیا اور جیسے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی، ہائے اللہ میرا موبائیل اور وائیلیٹ، ''کلاس فیلو'' کو مس کال مارنے کا بولا تو بولی: ''دیکھا اس لیئے کہری تھی صبحو، نہی ڈلوا کہ دیا نہ بیلنس''،
خیر ''کر کرا کہ'' پارک میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو جیسے بچوں کا کال پڑ گیا ہو، گولے گنڈے والے سے بھی ادھار کرنا پڑا۔ حالانکہ مجھے بہت سے شواہد بھی ملے مگر پھر بھی پتہ نہی کیوں دل کہتا ہے کہ ''وہ ایسی نہیں''، بس جی اللہ بہتر جانتا موبائیل چاہیئے تھا تو موں سے مانگ لیتے میں نے بھی تو منع ہی کرنا تھا نہ مگر یہ کیا کہ کسی کو موں دکھانے لائیق نہیں چھوڑا! کیا بتاؤں گا میں دنیا والوں کو کہ بچے چھین گئے میرا موبائیل بقول شاعر: ''ہمیں تو بچوں نے لوٹا بڑوں میں کہاں دم تھا''، خیر! آپ کو تو پتہ ہے میں شوخا بندا تو ہوں نہیں کہ فورن اسٹیٹس ڈال دوں ''موبائل ہیز کڈ نیپڈ '' اور سچی بات تو یہ غم موبائیل کا نہیں بلکہ ان 63 لمبرز کا ہے جو میری عمر بھر کی پونجی اور سرمایہ حیات تھے۔
بقول شاعر:
''سیکنڈوں میں میرے دست کشادہ سے ضائیع ہوئے
وہ عمر بھر کی محنت سے نکلوائے ہوئے لمبرز''
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں