سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2014-02-15

جال ہم رنگ زمین

سوشلزم اور کمیونزم 70 برس تک اسلام کے خلاف جنگ میں مصروف رہے۔ یہ جنگ معیشت، معاشرت، سیاست یہاں تک کہ جنگی میدانوں میں بھی لڑی گئی۔ نظریاتی جنگ مشکل ترین جنگ ہوتی ہے اور خاص کر جب، جب عدو کی صف میں بھی اپنے ہی لوگ کھڑے ہوں۔ اس جنگ میں بہت سے مسلمان سوشلزم اور کمیونزم کا صحیح علم نہ رکھنے کے باعث اسلام کے خلاف استعمال ہوئے۔ اس جنگ میں کمیونزم اور سوشلزم کا سب سے بڑا ہتھیار ذرایئع ابلاغ رہا۔ جس کے ذریعے اسلام کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا گیا۔ تاہم اہل اسلام نے سوشلزم اور کمیونزم کو شکست دی۔ اور نہ صرف ان نظریات کا غیر فطری ہونا ثابت کیا بلکہ دلائل کے ساتھ ان نظریات کو انسان کے جسمانی اور روحانی مفادات کا مخالف بھی ثابت کیا۔ اس کے بعد اسلام کو لبرلزم اور سیکولرزم کا سامنا کرنا پڑا۔

اسلام چونکہ ایک مکمّل ضابطہ حیات ہونے اور انسانوں کے تمام دُنیاوی اُمور میں خدا کی حاکمیت کا قائل اور علَم بردار ہے ،اور ''لبرلزم'' اور ''سیکولرزم'' کی تو بنیاد ہی خدا اور حیات بعد الموت سے انکار پر رکھی گئی ہے۔ اس لیے اسلام کے اصل دُشمن ''لبرلزم'' اور ''سیکولرزم'' ہی ہیں۔

مسلمانوں کی اکثریت ''لبرلزم'' اور ''سیکولرزم'' کو بھی صحیح طور سے نہیں سمجھتی اس لیئے ان کی سوچ پروپیگنڈے کی نذر ہوجاتی ہے۔ ''لبرلزم'' اور ''سیکولرزم'' کے علمبردار مسلامانوں کو ایک دھوکے میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ، رسول، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں، مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال آپ کسی بھی وقت کسی بھی ٹاک شو میں دیکھ سکتے ہیں  جہاں ایک سے ایک شرابی کبابی بیٹھا یہی راگ الاپ رہا ہو گا کہ ''شریعت کو تو سب مانتے ہیں''۔ ان کے مطابق ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور ''سیکولر'' یا ''لبرل'' ہو سکتا ہے۔ جب کہ اسلام تقاضہ کرتا ہے کہ ''دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ''۔ یہ لوگ مسلمانوں میں موجود کالی بھیڑیں ہیں جو سیاسی ، ادبی، صحافتی اور ثقافتی حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ اور حکومتی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے نہایت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ معاشرے کے تمام شعبوں سے اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ حضرات مسلمانوں کے عقائد ،مراسمِ عبودیت اور رسوم و رواج کی نہ صرف یہ کہ مخالفت نہیں کرتے بلکہ خود بھی ان کو اختیار کر کے عوام کو اپنے متعلق پکّے مسلمان ہونے کا تأثّر دیتے ہیں یعنی نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اور دیگر عبادتیں کرتے ہیں مگر اسلامی قوانین کے نفاذ سے چڑتے ہیں۔

لفظ ''لبرل'' قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ''لائیبر'' اور پھر ''لائبرالس'' سے ماخوذ ہے۔ جس کا مطلب ''آزاد'' ہے۔  آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنی ایک ''آزاد آدمی'' ہی تھا۔ بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔ اٹھارہویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدا کی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی۔ یعنی اب ''لبرل'' سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو۔ اور ''لبرلزم'' سے مُراد ایسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ سیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔

لفظ ''سیکولر'' قدیم لاطینی لفظ ''سیکولارس'' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ''وقت کے اندر محدود''۔ تحریک احیائے علوم کے دوران یورپ میں خدا کے انسانی زندگی میں دخل کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی تو کہا جانے لگا کہ ''چونکہ خدا وقت کی حدود سے ماورا ہے اور انسان وقت کی حدود سے مقیّد ہے لہٰذا انسانی زندگی کو ''سیکولر'' یعنی ''خدا سے جدا'' ہونا چاہیے۔ اس لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں 1846 میں متعارف کروانے والا پہلا شخص برطانوی مصنّف ''جارج جیکب ہولیوک'' تھا۔ اس اصطلاح کے عام ہوجانے کے بعد پہلے ''برطانیہ'' پھر ''یورپ'' اور پھر دُنیا بھر میں سیکولرزم کے معنی یہ ہوئے کہ ’’انسانی زندگی کے دنیا سے متعلق اُمور کا تعلق خدا یا مذہب سے نہیں ہوتا‘‘ اور مزید یہ کہ ’’حکومتی معاملات کا خدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ ''سیکولرازم'' کی اس تعریف پر دنیا بھر کے سیکولرز کا اتفاق ہے۔ یورپ میں مذہب بے زاری خدا کے انکا ر اور انسان کو بندر کی اولادسمجھنے تک جا پہنچی۔ اب یورپ میں یہ فکر جنم لینی لگی کہ: انسان اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ساری جدوجہد کرے۔ تمام انسان بھی عام حیوانوں کی طرح حیوان ہی ہیں۔ لہٰذا اس دنیا میں بقاء محض طاقت ور کو نصیب ہوگی۔ ''چارلس ڈارون'' اور ''ہربرٹ سپنسر'' اس فکر کے علَم بردار تھے۔ اس فکر کے پھیلنے کے بعد یورپی اقوام کمزوراقوام پر ٹوٹ پڑیں۔ مفتوحہ ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے یورپی اقوام نے وہاں اپنی  ''سیکولر'' اور ''لبرل'' فکر کی ترویج کے لیے کالج اور یونی ورسٹیاں تعمیر کیں۔ اور معاشرت اور معیشت میں اپنی تہذیب اور اپنے تمدّن کو رائج کیا جسے مفتوحہ اقوام نے قبول کیا۔ فاتح اقوام نے رزق کے ذرائع اپنے قائم کردہ ''سیکولر'' تعلیمی اداروں کی اسناد کے ساتھ منسلک کر دیے۔ مفتوحہ اقوام کے نوجوان ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ اس طرح یورپ کی خدا اور مذہب سے بغاوت پر مبنی فکر تعلیم کے ذریعے تمام دنیا میں پھیل گئی۔ مسلمان ممالک میں اس مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم نے ہرطرف انتشار اور فساد پیدا کردیا ہے۔ سیکولر نظامِ تعلیم کے نتیجے میں اللہ رسول اور یوم حساب پر یقین کمزور پڑنے لگا۔ جس سے مادہ پرستی، لذت پرستی، حرص ،ظلم، فحاشی و عریانی، کاروباری ذہنیت، دھوکا دہی، قتل و غارت گری اور بد امنی ہر طرف پھیل چکی ہے۔

چونکہ ''لبرلزم'' کے مقابلے میں ''سیکولرزم'' نسبتاً نرم اصطلاح ہے اس لیئے مسلمانوں میں اس نظریئے کا زیادہ پرچار کیا جاتا ہے۔ تاہم دونوں نظریات میں کوئی زیادہ فرق بھی نہیں۔ یہ کہنا بھی کسی طور غلط نہ ہوگا کہ جو مسلمان بھی ''لبرل'' نظریئے کا پیرو ہوتا ہے وہ کبھی نہ کبھی ''سیکولر'' نظریئے کا ماننے والا رہا ہوتا ہے۔ البتہ مسلمانوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد اب تک دینِ اسلام سے وابستہ ہے اور یورپ کی اس فکر کے خلاف ہے۔

اسلام محض عقیدے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ایک دین یعنی مکمّل نظامِ حیات ہے۔ یہ نظام لگ بھگ بارہ سو برس تک دُنیا کے ایک بڑے حصّے پر غالب ،حاکم اور مقتدر رہا۔ کچھ مسلم حکمران اگرچہ سرکش بھی رہے مگر مسلمان معاشروں میں عدالتیں اسی نظام کے مطابق فیصلے کرتی رہیں۔ بازار میں تجارت اس کے قوانین کے مطابق ہوتی تھی۔ درس گاہوں میں تعلیم اسی کی دی جاتی تھی۔ معاشرت کا پورا نظام اسی کی ہدایات کے مطابق تشکیل پایا تھا اور حکمران اِن اُمور کو اسلام کا اٹوٹ انگ سمجھتے تھے۔ آج بھی دینِ اسلام کی اصل تعلیمات گُم ہوئی ہیں نہ علماء کرام نے کبھی کسی فرد کو دینی معاملات میں خدا اور رسول کے بجاے کُلّی اختیارات کا حامل سمجھا۔ عقلِ جس کے یہ سیکولر اور لبرل حضرات بہت قائل ہیں۔ اسی عقل کا تقاضا ہے کہ جو شخص خدا کو کائنات کا مالک مانتا ہو اسے اس مالک کے احکام کو انسانی زندگی میں بھی ماننا چاہیے۔ اسلامی ممالک میں دینِ اسلام کے دُنیاوی اُمور سے متعلق تعلیمات کے بارے میں جو بے اطمینانی پائی جاتی ہے اس کی وجہ یہی فکر ہے۔ جس کی سخت قسم ''لبرلزم'' اور قدرے نرم قسم ''سیکولرزم'' کہلاتی ہے۔ پاکستان میں سیکولرزم کا نام لیے بغیر بھی بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ کو اس کی وکالت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سیکولر لوگ 11 اگست 1947ء کو کی جانے والی بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی محض ایک تقریر کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور اس کی تشریح بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر کرتے ہیں۔ اسلام کے خلاف یہ نظریاتی جنگ ایک طویل عرصے سے لڑی جارہی ہے۔ اس جنگ میں بہت سے لوگ دانستہ اور بہت سے نا دانستہ طور پر اغیار کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ بہت سے ناسمجھ مسلمان صرف شدت پسند نہ کہلوائے جانے کی وجہ سے ان نظریات کی حمایت کرتے ہیں۔ ان سادہ لوح مسلمانوں کو دین سے بے بہرہ کرنے کے لیئے تعلیمی میدانوں میں بہت کام ہو رہا ہے۔ ذرایع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے دین سے بیذاریت پھیلائی جارہی ہے۔ اسلامی شعار کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں کے نام آپ کو حافظ، قاری، مولانا اور ڈاکٹر کے لاحقوں کے ساتھ ملیں گے.یہ وہ لوگ ہیں جو دوا کی پڑیا میں زہر بیچتے ہیں اور اسلام کے کھلم کھلا دشمنوں سے کئی گنا خطرناک ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کو روکا جائے۔ کیوں کہ یہی وہ نظام ہے جو اگر اپنی روح کے مطابق نافذ ہوگیا تو مادہ پرستوں اور ہوس کے پجاریوں کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔

1 تبصرہ:

محمد بابر الرحماٰن مغل کہا...

بہت ہی اعلیٰ تحریر، اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے، کہ وہ آپ سے اور ہم سب سے اپنے دینِ خالص کا کام لیتا رہے۔ آمین