سرچنا نہی!

تلاش کے نتائج

2014-07-02

لارڈ ماؤنٹ قریشی

پچھلے مہینے ایک صاحب سے ملاقات شیڈولڈ تھی، ملاقات کے لیئے پنھچا تو صاحب نے اس سڑیل گرمی میں بھی انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ لیکن میں نے تو ''صاف انکار'' کردیا کہ میں تو نہیں پینے کا اس گرمی میں چائے۔ بات چلی تو پھر دور تک گئی اور وہ سوال بھی اٹھا جس کا جواب دینے میں مجھے سخت کوفت ہوتی ہے۔ تو جناب کیا مصروفیات ہیں آپ کی آج کل۔ میرا مطلب کیا کرتے ہیں آپ؟ پھر میں نے بھی بغیر لگی لپٹی بتادیا کہ کیا کیا کرتا ہوں میں۔ میری لکھنے کی صلاحیت پر صاحب انتہائی حیران ہوئے ''کہ اتنا فضول کیسے لکھ لیتے ہیں آپ؟'' میں بولا: نہ صرف لکھ لیتا ہوں بلکہ سن بھی لیتا ہوں مگر زیادہ دیر نہیں اب مجھے اجازت دیں۔ جاتے جاتے صاحب نے مجھے کچھ نصیحتیں کیں جن میں سے ایک مجھے یاد رہ گئی۔ صاحب بولے: ماشااللہ آپ بہت ٹیلنٹڈ آدمی ہو اپنا مطالعہ بڑھاؤ نہ صرف اردو بلکہ انگریزی ادب بھی پڑھا کرو۔ یہ انگریزی ادب والی بات ایک دفعہ پہلے بھی میرے ایک فیس بکی دوست کہہ چکے تھے۔ پلو کی عدم دستیابی کے سبب یہ بات مجھے ذہن میں ہی محفوظ کرنی پڑی۔ اور میں وعلیکم اسلام کہہ کر وہاں سے نکل لیا۔ اب انگریزی ادب میں کیا پڑھا جائے یہ خود ایک مسلہ تھا۔ صلاح مشورے کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ انگریزی ادب کے شہرہ آفاق ناول ''دا جیری کارڈلوف اینڈ تھرٹی فائیؤ پنکچرز'' سے شروعات کی جائے۔ ناول مکمل کرتے ہی میں نے اس شاندار ناول کا اردو ترجمہ کرنا شروع کردیا تاکہ ناول کو آپ کے ساتھ بھی شئیر کیا جاسکے۔ لیکن آج بات کرلیتے ہیں ناول کے مصنف، انگریزی ادب کے لیجنڈری رائیٹر ''لارڈ ماؤنٹ قریشی'' کے حالات زندگی کے بارے میں۔


 آپ سب سے پہلے ''انیس سو ڈیڑھ میں'' میں ''برمودا ٹرائی اینگل'' میں اور پھر بعد ازاں ''کیلی فارنیا'' کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ ایک ''بھدی میکسیکن انگریز'' اور آپ کے ایک والد اور ماجد ''نئی کرانچی ساڑے سات نمبر'' کے ایک قریشی خاندان سے بھی تھے۔ ابتدائی تعلیم کیلی فارنیا سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیئے جرمنی چلے گئے جہاں ہٹلر کی حکومت عوام پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی تھی۔ آپ نے ہٹلر حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک ''اب بس بھی کریں نہ'' میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسی دوران بادشاہ وقت کے خلاف بے شمار کالمز، مضامین بلاگ پوسٹس اور نظمیں لکھیں۔ آپ کی نظم ''دز کائینڈ آف دستور، مارننگ ود آؤٹ نور، آئی ڈانٹ ایکسیپٹ آئی ڈانٹ ایکسیپٹ'' نے عوام میں بے پناہ پذیرائی حاصل کی۔ مئی1945 میں جدوجہد آزادی کی پاداش میں آپ کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ ''مورٹل کومبیٹ'' اپنی کتاب ''ٹین بگیسٹ چولیز آف دی ہسٹری'' میں لکھتا کہ جب ''لارڈ ماؤنٹ قریشی'' کو جج کے سامنے پیش کیا گیا اور تمام الزامات ثابت ہوگئے تو جج نے آپ سے آخری خواہش پوچھی تو آپ نے یہ تاریخی الفاظ کہے ''میری جگہ تو لٹک جا''

بلآخر آپ کو پھانسی گھاٹ چڑھا کر امر کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ وقتی طور پر تو آپ ضرور مر گئے مگر ٹھیک پندراں ایپیسوڈ بعد پلاسٹک سرجری کراکہ نئے نام ''وکرم سنگھانیاں'' سے دوبارہ اینٹری مار بیٹھے۔ اس بار آپ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیئے  آموں کی پیٹی میں بم دبا کر آپ کو ہوائی سفر پر روانہ کیا گیا۔ راوی کی بیوہ لکھتی ہے کہ جہاز کے  پرخچے اڑے اور آپ  کے ساتھ ساتھ راوی بھی جہنم واصل ہوگیا۔  آپ کی باقیات کو دفن کرکہ اِحْتِیاطاً اس پر دیوار برلن تعمیر کرانی پڑی۔ ذرائع کے مطابق تادم تحریر آپ مرے ہوئے ہی ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں: